نغمہ کے معنی
نغمہ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ نَغ + مَہ }راگ، گیت اچھی آواز
تفصیلات
١ - راگ، گیت، ترانہ، سریلی آواز، آواز جوش، میٹھی آواز۔, m["آواز خوش","آوازِ خوش","ترانہ (نَغَمَ۔ آہستہ آواز سے پڑھنا یا گانا)","رسیلی آواز","سریلی آواز","سُریلی آواز","سہانی آواز","میٹھی آواز"],
اسم
اسم صوت ( مذکر - واحد ), اسم
اقسام اسم
- واحد غیر ندائی : نَغْمے[نَغ + مے]
- جمع : نَغْمات[نَغ + مات]
- جمع غیر ندائی : نَغموں[نَغ + موں (و مجہول)]
- لڑکی
نغمہ کے معنی
نغمہ کے مترادف
آہنگ, آواز, گانا, گیت, ترانہ, زمزمہ
برگ, ترانہ, خنیا, دستان, راگ, سرش, سرود, شکن, غنا, گانا, گیت, لام, نشید
نغمہ کے جملے اور مرکبات
نغمہ ریز, نغمہء داؤد, نغمہء دلدار, نغمہء روح, نغمہ زار, نغمہ زائی, نغمہ زن, نغمہء زندگی, نغمہ زنی, نغمہء ساربان, نغمہ ساز, نغمہ ساں, نغمہء امیہ, نغمہ آرا, نغمہ آفرینی, نغمہ بار, نغمہ باری, نغمۂ بلبل, نغمہ پرداز, نغمہ پروری, نغمہ پیرا, نغمۂ تر, نغمۂ توحید, نغمۂ جبریل, نغمۂ جدائی, نغمۂ حیات, نغمہ خرام, نغمۂ خسرو, نغمہ خواں, نغمہ خیز, نغمہ خیزی, نغمہ نواز, نغمہ نوازی, نغمۂ نیوش, نغمہ ہائے غم, نغمہ کار, نغمۂ کن, نغمہ گر, نغمۂ موج صبا, نغمۂ ناہید, نغمہ نگار, نغمہ طرازی, نغمۂ عشق, نغمۂ عیش, نغمہ فروش, نغمہ فشاں, نغمۂ قوال, نغمہء امید, نغمہ بلب, نغمہء بلبل, نغمہ پردازی, نغمہ پیرائی, نغمۂ جانفزا, نغمہ خوانی, نغمۂ دایدی, نغمۂ دلدار, نغمہ ریزی, نغمہ زا, نغمہ سازی, نغمہ سنج, نغمہ طراز, نغمہ کاری, نغمۂ کوکو, نغمہ گری, نغمہ نوائی, نغمہ ور
نغمہ english meaning
a softsweet voice; a musical sound or tone; melody; song; modulation; trillshakeNaghma
شاعری
- تم چاندنی ہو‘ پھول ہو‘ نغمہ ہو‘ شعر ہو
اللہ رے! حسنِ ذوق مرے انتخاب کا - نغمہ ہائے غم کو بھی اے دل غنیمت جانیے
بے صدا ہوجائے گا یہ سازِ ہستی ایک دن - گلیاں
(D.J. ENRIGHT کی نظم STREETS کا آزاد ترجمہ)
نظم لکھی گئی تو ہنوئی کی گلیوں سے موسوم تھی
اس میں گرتے بموں سے نکلتی ہُوئی موت کا تذکرہ تھا‘
فلاکت‘ دُکھوں اور بربادیوں کی اذیّت بھری داستاں درج تھی
اِس کے آہنگ میں موت کا رنگ تھا اور دُھن میں تباہی‘
ہلاکت‘ دُکھوں اور بربادیوں کی الم گُونج تھی
نظم کی اِک بڑے ہال میں پیش کش کی گئی
اِک گُلوکار نے اس کو آواز دی
اور سازینے والوں نے موسیقیت سے بھری دُھن بنا کر سجایا اِسے
ساز و آواوز کی اس حسیں پیشکش کو سبھی مجلسوں میں سراہا گیا
جب یہ سب ہوچکا تو کچھ ایسے لگا جیسے عنوان میں
نظم کا نام بُھولے سے لکھا گیا ہو‘ حقیقت میں یہ نام سائیگان تھا!
(اور ہر چیز جس رنگ میں پیش آئے وہی اصل ہے)
سچ تو یہ ہے کہ دُنیا کے ہر مُلک میں شاعری اور نغمہ گری کی زباں ایک ہے
جیسے گرتے بموں سے نکلتی ہُوئی موت کی داستاں ایک ہے
اور جیسے تباہی‘ فلاکت دُکھوں اور بربادیوں کا نشاں ایک ہے
سچ تو یہ ہے کہ اب کرّہ ارض پر دُوسرے شعر گو کی ضرورت نہیں
ہر جگہ شاعری کا سماں ایک ہے
اُس کے الفاظ کی بے نوا آستیوں پہ حسبِ ضرورت ستارے بنانا
مقامی حوالوں کے موتی سجانا
تو ایڈیٹروں کے قلم کی صفائی کا انداز ہے
یا وزیرِ ثقافت کے دفتر میں بیٹھے کلکروں کے ہاتھوں کا اعجاز ہے!! - کس شبِ نغمہ کی ہیں یہ یادگار!
چند نوحے جو ہوا میں رہ گئے - روح کی آنکھیں چکا چوند ہوئی جاتی ہیں
کس کی آہٹ کا مرے کان میں نغمہ چمکا - یہی اب جو ہے یہاں نغمہ خواں، یہی خُوش بیاں
کسی شام کُوئے نگار میں اُسے دیکھتے - کب جانے ہوا اس کو بکھرادے فضاؤں میں
خاموش درختوں پر سہما ہوا نغمہ ہے - وہ راجہ نغمہ سن دل کو گیا بھول
برنگ گل گیا تھا آپ میں پھول - عنادل جو ہوتے ہیں نغمہ سرا
انھیں آس دیتی ہے موج صبا - عنایت کر مجھے آشوب گاہ حشر غم اک دل
کہ جس کا ہر نفس ہم نغمہ ہوشور قیامت کا
محاورات
- نورا تلخ ترمی زن چو ذوق نغمہ کم یابی