پنکھا کے معنی
پنکھا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ پَن (ن غنہ) + کھا }
تفصیلات
iسنسکرت میں لفظ |پکش + کہ| سے ماخوذ |پنکھا| اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦١١ء کو "دیوان قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["کھینچنا","ہلانا","ہونا کے ساتھ","ایک آلہ جس کے ذریعے ہوا پہنچاتے ہیں یہ یا تو ہاتھ میں پکڑ کر ہلایا جاتا ہے یا چھت میں ڈال کر رسی کے ذریعے کھینچا جاتا ہے","ایک دھات کا آلہ جو گرمی یا بجلی کے ذریعے چلتا ہے اور ہوا دیتا ہے","باد کش","س۔ پکشک","لکڑی کا ایک آلہ جن کے اندر لکڑی کے پتلے تختے نکلتے ہیں اسے دستے سے پکڑ کر چکر دیتے ہیں تو اس میں سے ہوا نکتلی ہے","موٹروں یا ہوائی جہازوں اور دیگر کلوں میں ایک آلہ جو ہوا دے کر پانی کو ٹھنڈا کرتا ہے"]
پکش+کہ پَنْکھا
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- واحد غیر ندائی : پَنْکھے[پَن + کھے]
- جمع : پَنْکھے[پَن + کھے]
- جمع غیر ندائی : پَنْکھوں[پَن (ن غنہ) + کھوں (و مجہول)]
پنکھا کے معنی
|پنکھا انجن اور ریڈی ایٹر کے درمیان فِٹ ہوتا ہے اور کولنگ میں جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے بہت مدد دیتا ہے۔" (١٩٢٣ء، آئینۂِ موٹر، ٨٢)
|بے عیب عمدہ گھوڑے میں - پنکھے یعنی شانے اُٹھے ہوئے اور ڈھلے ہوئے ہوتے ہیں۔" (١٨٧٢ء، رسالہ سالوتر، ١٩:١)
|اس جلوس کو دیکھو - بانس کی کھچیوں کا بڑا سا پنکھا بنا، آئینے لگا، پھولوں سے سجا، ایک لمبے رنگین بانس پر لٹکا دیا تھا۔" (١٩٤٧ء، فرحت، مضامین، ٤١:٢)
پنکھا english meaning
A fanto gulpto swallow
شاعری
- دھرتی سرنگیں فرش کی چوندھر سمد جوں حوض ہے
چھپر پلنگ سات آسماں پنکھا سو تج بارا ہوا - پنکھا ہو کر میں ڈولے ساتھے تیرے جاؤ
ڈولتے مجکوں جنم گیا تیرے لیکھے باؤ - ہرِ پروانہ جھلے پُھولوں کا پنکھا ایسا
کہ مِئے شمع کی بھی دل کی لگی دل کی جلن - دھرتی سُرنگیں فرش کی چوندھر سمد جوں حوض ہے
چھپر پلنگ سات آسماں پنکھا سو تج بارا ہوا - چہرے کی بلائیں لوں یہ کہہ کے ضیا دوڑی
پنکھا لئے ہاتھوں میں جنت کی ہوا دوڑی
محاورات
- دل کو پنکھا لگنا یا ہونا