پڑنا کے معنی
پڑنا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ پَڑ + نا }
تفصیلات
iسنسکرت میں لفظ |پتنی ین| سے ماخوذ |پڑ| کے ساتھ اردو قاعدے کے تحت علامت مصدر |نا| ملنے سے |پڑنا| بنا۔ اردو میں بطور فعل استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٤٢١ء کو "شکارنامہ بحوالہ و شہباز" میں ملتا ہے۔, m["آرام کرنا","بیکار رہنا","پڑاؤ کرنا","خالی ہونا","شامل ہونا","صاحب فراش ہونا","غیر آباد ہونا","قیام کرنا","مبتلا ہونا","مشغول ہونا"]
پتنیین پَڑْنا
اسم
فعل لازم
پڑنا کے معنی
خودبخود گرنے کو ہے پکے ہوئے پھل کی طرح دیکھیے پڑتا ہے آخر کس کی جھولی میں فرنگ (١٩٣٥ء، بالِ جبریل، ٢٢١)
جا سکے آج مرے گھر سے نہ وہ برقِ جمال پانی اس طرح کا اے چرخِ ستمگار پڑے (١٨٥٨ء، امانت، دیوان، ١١٠)
"جہاں دو گھنٹے تک ہم سب پڑے خراٹے لیتے رہے۔" (١٩٤٤ء، سوانح عمری و سفرنامہ حیدر، ١٥٦)
"میں اس سے پہلے کبھی اس بحث میں نہیں پڑا۔" (١٩٣٧ء، خطبات عبدالحق، ١١١)
"مجھے تو اپنی عزت کی پڑی ہے۔" (١٩٣٥ء، آغاحشر، اسیر حرص، ٢٢)
"اس نے جل کلس کر اس سے کہا تجھے دل لگی اور ٹھٹول کی پڑی ہے۔" (١٩٣٧ء، قصص الامثال، ٣٩٤)
پڑے گنگناتے تھے لالہ نرنجن نہ آنکھوں میں انجن نہ دانتوں میں منجن (١٩٢١ء، اکبر، کلیات، ٨٦:٢)
"اگر پٹیوں کی طرف کنّی ہے تو خیر ورنہ سیون باریک پڑتی جائے گی۔" (١٩٠٨ء، صبحِ زندگی، ١٦٣)
"مکان سے عرصے سے ایسے ہی پڑا ہے، کوئی اس میں آباد نہیں ہوا۔" (١٩٢٦ء، نوراللغات، ٩٠:٢)
"آخر تمہیں کیا پڑی تھی کہ نمائش کے لیے ایک عدد بیوی رکھ لی۔" (١٩٥٤ء، شاید کہ بہار آئی، ٤٧)
لڑائی میں کیا جانے کیسی پڑے لڑے یا نہ اپنا مقدر لڑے (١٩٣٢ء، بے نظیر شاہ، کلامِ بے نظیر، ٢٦٧)
"برس کے اندر ہی ساس بہو کے مخالف ہو گئیں اور اس کی بنیاد اس طرح پڑی کہ احسان علی اپنی خوبصورت اور سمجھ دار بیوی کی قدر و محبت کرنے لگا۔" (١٩٣٥ء، دکھ بھری کہانی، ٥)
"وہ کالج سے چل کر گھر جاتا ہے اس کے قدم پڑتے ہیں لیکن اسے کچھ معلوم کہ کہاں جا رہا ہے۔" (١٩٣٣ء، مرحوم دہلی کالج، ١٥٨)
"باہر نکلتے ہیں تو لکڑیاں پڑتی ہیں اور گھر میں رہتے ہیں تو پتھر آتے ہیں۔" (١٩٢٩ء، آمنہ کا لال، ١١٢)
"اوس کی موت کی گندھک کی کان تپ رہی ہے اب میرے اس خون سے اس میں چنگاریاں پڑیں گی۔" (١٩٠١ء، عشق و عاشقی کا گنجینہ، ٦٦)
"کیا یہ واقعات آپ کے کانوں میں پڑتے ہیں۔" (١٩٤٣ء، حیات شبلی، ٥٥٨)
جب وہ ناداں عدو کے گھر میں پڑا داغ اک داغ کے جگر میں پڑا (١٨٩٢ء، مہتابِ داغ، ٣٤)
"تین سے اٹھارہ خانہ زاد غلاموں کو لیا اور بانیاس تک ان کا تعاقب کیا، تب وہ اور اس کے خادم سب کئی غول ہوئے اور ان پر پڑے۔" (١٨٢٢ء، موسٰی کی توریت مقدس، ٤٤)
وقت اچھا بھی آش گا ناصر غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی (١٩٧٢ء، دیوانِ ناصر کاظمی، ٣٥)
بخت بلبل کے میں صدقے فصلِ گل آئی نہیں پڑ گیا صحنِ چمن میں جھونپڑا صیاد کا (١٩٠٧ء، دفترِ خیال، تسلیم، ٣٣)
"نرخ تین روپے فی ہزار پڑا۔" (١٩٤٤ء، مٹی کا کام، ٥٤)
"بھائی اقبال کو ٹال پر بھیجا تھا کہ ایندھن اکٹھا پڑ جائے۔" (١٩٠٨ء، صبحِ زندگی، ١٩٠)
"کسی کتاب کا ترجمہ کرنے میں یہ طرز تحریر بجائے مفید ہونے کے الٹا مضر پڑتا ہے۔" (١٩١٨ء، روح الاجتماع، ٣)
"سسرال کی روٹیوں پر پڑا ہے۔" (١٩٦٦ء، نوراللغات، ٩١:٢)
"(زمرد) اگر معجون میں پڑے دل کو فرحت دے۔" (١٨٧٣ء، مطلع العجائب، ٢٨٧)
"روح یا جان پڑنا۔" (١٨٨٨ء، فرہنگِ آصفیہ، ٥٢١:١)
"اب تو بالی میں دودھ پڑ گیا ہے۔" (١٩٢٦ء، نوراللغات، ٩١:٢)
"سالن تو الگ رہا روکھے آٹے کے پھنکے اور سوکھی روئی کے ٹکڑے پڑ جائیں تو بہت۔" (١٩٠٨ء، صبحِ زندگی، ١٢٨)
"ذرا خیال کیجیے بارات دروازے پر پڑی ہوئی ہے۔" (١٩٣٦ء، پریم چند، واردات، ١٧)
"برس دن سے مقدمہ پڑا ہے فیصل نہیں ہوتا۔" (١٩٢٦ء، نوراللغات، ٩١:٢)
"ایک تاریک ڈیوڑھی سے گزرنے کے بعد مولانا کے مکان کا دروازہ پڑتا تھا۔" (١٩٧١ء، ہمارے عہد کا ادب اور ادیب، ٩١)
"کھیتوں میں ابھی تک بیج نہیں پڑا ہے۔" (١٩٢٦ء، نوراللغات، ٩١:٢)
"مول بیاج دے کر چھٹ جائے گا تو تمہیں مفت پڑا۔" (١٩١١ء، قصہ مہرافروز، ٧٦)
"شاید میں نے ان کو کہیں دیکھا ہے ظاہراً صورت آشنا سے پڑتے ہیں۔" (١٨٠١ء، آرائش محفل، حیدری، ١٥)
اور زیور سادگی کو بار تھا کان میں آویزۂ گوہر پڑا (١٩٣٢ء، ریاض رضوان، ١١)
دل سے جاتا ہی نہیں ابرو و مژگاں کا خیال پڑ گئے تیروں میں ہم گِھر گئے تلواروں میں (١٩٣٢ء، ریاض رضوان، ٢٠٢)
"تمھاری بات میں پڑے سوگرہ سے بھرے۔" (١٨٨٨ء، فرہنگِ آصفیہ، ٥٢٢:١)
"بری تدبیر کرنے والے ہی پر پڑتی ہے۔" (١٨٩٧ء، البرامکہ، ١١٢)
"وہ بھی اسی طرح بے سمجھے بوجھے ایک عام راستے پر پڑ لیا اور کچھ نظر نہیں آتا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔" (١٩٠٩ء، مقالاتِ شبلی، ١٥٢:٣)
ان کا تو کھیل ہو گیا اور مرے جی پہ آ بنی سنتے ہی نام پڑ گئی سارے بدن میں سنسنی (١٩٢٥ء، عالم خیال، ١٣)
"اوپر تلے تینوں بچے پڑ گئے، مسعود خاصی اچھی طرح کھیلتا پھر رہا تھا، ماں کی شکل دیتے ہی جو بخار چڑھا تو اٹھنا مشکل ہو گیا۔" (١٨٩٥ء، حیاتِ صالحہ، ٥٠)
میری نگاہ شوق پڑی خوش ہوئے یہ بت اک چیز مفت مل گئی ان کو پڑی ہوئی (١٩٢١ء، اکبر، کلیات، ٣٥٤:٣)
رہ عشق میں اس کے گھبرا نہ او دل کڑی سے کڑی آگے منزل پڑے گی (١٨٣٢ء، دیوانِ رند، ١٤٩:١)
دل کی خوبو کچھ نہیں اے طفل اشک کچھ نہیں معلوم تو کس پر پڑا (١٩٣٣ء، ریاض رضواں، ١٢)
"سیاسی امور میں غور کرنے اور عملی تحریکوں میں پڑنے سے ان کا نقطۂ نظر بدل گیا۔" (١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ٣٣٠)
"یہ دوا نہیں پڑتی۔" (١٩٢٦ء، نوراللغات، ٩٠:٢)
"کہتے کیا ہیں ان کو کہنا پڑا ہے کہ مذہب سے الگ آدمی جانور سے بہتر ہے۔" (١٩٠٨ء، صبحِ زندگی، ٨٧)
ٹھوکر مجھے لگا کے جو نکلا وہ ناز سے اتنی خوشی ہوئی کہ مرا دل اچھل پڑا (١٩٢٥ء، شوق قدوائی، دیوان، ٦)
پڑنا english meaning
lie downrestreposefalldrop downbefallhang about (or around)concernworryconcern ; worryfall ; drop downrest ; repose
محاورات
- (پر) اوس پڑنا
- آئینہ میں بال آنا یا پڑجانا یا پڑنا
- آبرو کے پیچھے پڑنا
- آسمان پھٹ پڑنا
- آسمان پھٹنا (یا ٹوٹ پڑنا)
- آسمان زمین میں دھوم پڑنا
- آسمان سر پر پھٹ پڑنا
- آسمان سر پر ٹوٹ پڑنا یا گرنا
- آسمان گرنا یا گر پڑنا
- آسمان میں دھوم پڑنا