پیچوان کے معنی
پیچوان کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ پیچ (ی مجہول) + وان }
تفصیلات
iفارسی سے ماخوذ اسم |پیچ| کے ساتھ ہندی لاحقۂ فاعلی |وان| ملنے سے مرکبِ توصیفی بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے اور سب سے پہلے ١٨٤٥ء کو "مجمع الفنون (ترجمہ)" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["ایک قسم کا حقہ جس کا لچکدار نیچہ چست کے تار اور بھوج پتر وغیرہ لپیٹ کر بناتے ہیں تاکہ دور سے یا لیٹ کر جس طرح چاہیں بہ آسانی پی سکیں","ایک قسم کا حقہ جس کی نالی بہت لمبی ہوتی ہے اور اسے پیچ در پیچ کر کے رکھتے ہیں"]
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
پیچوان کے معنی
"بیوی کے زیر انداز بچھا کر پیچوان کا بَل اپنے ہاتھ سے میاں کے دہنے ہاتھ کی طرف قریب رکھ دیا" (١٩٢٣ء، اہل محلہ اور نااہل پڑوسی، ٦)
"اگر والو (Valve) یعنی ٹیوب کے گرد ایک پیچوان یعنی سولی نائیڈ (solenoid) لپیٹ دیا جائے اور اس میں برقی رو چلا کر ایک مقناطیسی میدان فلامنٹ کے متوازی عمل کرنے دیا جائے تو اس مقناطیسی میدان کے اثر کے باعث الیکٹران اپنے راستے سے پھر جاتا ہے" (١٩٧٠ء، جدیدی طبیعیات، ١٠١)
"مناسب حالات میں توانائی کو آزاد کرنے سے کام حاصل ہوتا ہے جو کسی انجن کے فشارے میں حرکت یا برقی موٹر کے پیچوان (Windings) میں برقی رو کی ترسیل کر سکتی ہے" (١٩٦٩ء، حرکیات، ١٧)
"گلے میں . تعویذ. جس کی کرمک، ٹھٹی، پچیوان . چکٹے ہوئے گلے میں۔ (١٩٢٣ء، اہلِ محلہ اور نااہل پڑوسی، ٢٩)
"پیچوان، جب حریف نیچے ہو تو ظفر کو چاہیے کہ حریف کی داہنی طرف بیٹھ کر حریف کی داہنی سانڈی کھینچے اور اپنے بائیں ہاتھ سے حریف کی بائیں ران کا جانگھیا پکڑ کر یاران میں ہاتھ ڈال کر اپنی داہنی طرف اولٹ دے" (١٩٠٧ء، رموزفن کُشتی، ٩٧)
پیچوان english meaning
hookah with long flexible pipe
شاعری
- آدم ، اک دمڑی کی حقیا کو رہے عاجز سدا
ہم کو کیا کیا پیچوان اور گڑ گڑی پر ناز ہے
غور سے دیکھا تو اب وہ یہ مثل ہے اے نظیر
باپ نے پدڑی نہ ماری بیٹا تیر انداز ہے