چراغ کے معنی
چراغ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ چَراغ }دیا، لیمپ
تفصیلات
iاصلاً فارسی زبان کا لفظ اور بطور اسم مستعمل ہے اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور اصل معنی اور اصلی حالت میں مستعمل ملتا ہے۔ ١٦١١ء میں قلی قطب شاہ کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔, m["(صفت) رونق","وہ ظرف جس میں تیل اور بتّی ڈال کر روشن کریں"],
اسم
اسم آلہ ( مذکر - واحد ), اسم
اقسام اسم
- جمع غیر ندائی : چَراغوں[چَرا + غوں (و مجہول)]
- لڑکا
چراغ کے معنی
"جس جگہ سیروں کاجل کی ضرورت ہوتی ہے وہاں بجائے چراغ کے انگیٹھی بناتے ہیں۔" (١٩٣٤ء، صنعت و حرفت، ١٨)
پہلے سے اسے بھیج دے جو تجکو ملا ہے اس گھر کا چراغ آل محمد کی ولا ہے (١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٣٧:٢)
چراغ کے جملے اور مرکبات
چراغ آسمان, چراغ بتی, چراغ بحری, چراغ بنگال, چراغ پایہ, چراغ تربت, چراغ چشم, چراغ جلے, چراغ خانہ, چراغ دان, چراغ روز, چراغ سحر, چراغ شام, چراغ صبح, چراغ طور, چراغ غول, چراغ کا پھول, چراغ کش, چراغ کشتہ, چراغ گور, چراغ مردہ, چراغ مزار
چراغ english meaning
A lampa lightCheragh
شاعری
- ٹک میر جگر سوختہ کی جلد خبر لے
کیا یار بھروسا ہے چراغ سحری کا - دمِ صبح بزم خوش جہاں شب غم سے کم نہ تھے مہربان
کہ چراغ تھا سو تو دُود تھا‘ جو پتنگ تھا سو غُبار تھا - شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا - جانی نہ قدر اس گہر شب چراغ کی
دل ریزہ خذف کی طرح میں اُٹھا دیا - گرمی چراغ کی سی نہیں وہ مزاج میں
اب دل فسردگی سے ہوں جیسے بُجھا دیا - اُس سے یوں گل نے رنگ پکڑا ہے
شمع سے جیسے لیں چراغ لگا - اس وقت سے کیا ہے مجھے تو چراغ وقف
مخلوق جب جہاں میں نسیم و صبا نہ تھی - بُجھ گئے ہم چراغ سے باہر
کہیو اے باد شمعِ محفل تک - آمد پہ تیری عطر و چراغ و سبو نہ ہوں
اتنا بھی بود و باش کو سادا نہیں کیا - اس شہرِ بے چراغ میں جائے گی تُو کہاں
آ اے شبِ فراق تجھے گھر ہی لے چلیں
محاورات
- آج کل ان کے پیشاب میں چراغ جلتا ہے۔آج کل (ان کے نام) ان کی ناؤ کمان چڑھتی ہے
- آخر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
- آستین سے چراغ بجھانا
- آفتاب کو (چراغ) دیا دکھانا
- آندھی اور چراغ میں کیا نسبت
- آندھی اور چراغ کو کیا نسبت
- آندھی کو چراغ دکھانا
- آٹے کا چراغ گھر رکھوں تو چوہا کھائے۔ باہر رکھوں تو کوا لے جائے
- آٹے کا چراغ‘ گھر رکھوں تو چوہا کھائے باہر رکھوں تو کوا لے جائے
- ان کے پیشاب سے چراغ جلتا ہے