چکور کے معنی
چکور کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ چَکور (و مجہول) }
تفصیلات
iسنسکرت زبان کے لفظ |چکور| سے ماخوذ اردو میں |چکور| بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["آتش خوار","ایک خوشنما تیتر کے قسم کا پرند جس کے چونچ پنجے سرخ اور گلے میں طوق ہوتا ہے","ایک راجہ","ایک شہر","ایک قوم","پہاڑی تیتر","تیتر کی قسم کا ایک پرند جس کی چونچ اور پنجے سرخ اور گلے میں طوق ہوتا ہے۔ پرانے زمانے کے لوگوں کا خیال تھا کہ یہ چاند پر عاشق ہے اور چاند کی کرنیں کھاتا ہے اور بدر کی رات کو آگ کھاتا ہے","ماہ پرست","مرغِ آتشخوار","مہتاب پرست"]
چکور چَکور
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جنسِ مخالف : چَکوری[چَکو + ری]
- جمع غیر ندائی : چَکوروں[چَکو + روں (و مجہول)]
چکور کے معنی
"عمدہ غذاؤں کے ذریعہ خون کی اصلاح کریں، جیسے چکور، تیتر لوؤں کا گوشت۔" (١٩٣٦ء، شرح اسباب (ترجمہ)، ٣٠٨:٢)
چکور english meaning
jabbersound of lappingThe red-legged partridgeundesireable sound made in eating
شاعری
- پال گئے تھے تم چکور ہوتی ہوں اس سے شاد میں
پڑتی ہے اس پہ جب نظر کرتی ہوں تم کو یاد میں - دوڑنے بدن میں وہ خارش کا زور
وہ کھٹمل کی الفت کہ جیسے چکور - سو ہد ہد و لک لک ممولے و مور
سو جاری کے بگلے و جنگلی چکور - اگر نیں ہے عاشق چکور چاند کا
تو راتاں کوں وو کیا سبب جاگتا - کہ صاحب یو سن کر ہوا ات چکور
کھیا پیر نا بیج آج ہے چکور - چکور اور شہباز سب اوج پر ہیں
مگر ایک ہم ہیں کہ بے بال و پر ہیں - سو ھد ھد و لک لک ممولے و مور
سو جاری کے بگلے و جنگلی چکور - سجن سوں دل یوں لگیا ہے میرا چکور چندر رہے جنم جوں
پیا سوں مِلتے ہوئی خوشی مج دوتن کا دل سب ہوا آوارا - اول کے حسن عشق کو لایا ہے راہ پر
عاشق چکور روز اسل سے ہے ماہ پر