چھیڑ کے معنی
چھیڑ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ چھیڑ (ی مجہول) }{ چِھیڑ }
تفصیلات
iسنسکرت زبان کے لفظ |کشیت| سے ماخوذ اردو مصدر |چھیڑنا| سے حاصل مصدر |چھیڑ| بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٧٨٢ء کو "دیوان محبت" (قلمی نسخہ) میں مستعمل ملتا ہے۔, ١ - ہجوم میں کمی، مجمع میں کمی، چھٹائے، بھیڑ کی ضد۔, m["(امر) چھیڑنا کا","آدمیوں کی کمی","ابتدائے فساد","اشتعال طبع","باجا بجانا","تنگ کرنا","چھیٹ اور چھیڑ","دل لگی","دیکھئے: چھیر","ہاتھ لگانا"]
اسم
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد ), اسم نکرہ
اقسام اسم
- جمع : چھیڑیں[چھے + ڑیں (یائے مجہول)]
- جمع غیر ندائی : چھیڑوں[چھے + ڑوں (و مجہول)]
چھیڑ کے معنی
لاگ کیوں برق کو میرے دل بیتاب سے ہے چھیڑ بجلی کو عبث قطرۂ سیماب سے ہے (١٩٣٦ء، صرفنا تمام، ٩٦)
پوچھ زاہد نہ مجھ سے عشق کا حال چھیڑ اچھی نہیں ہے مذہب کی (١٩٢٧ء، شاد عظمی آبادی، میخانہ، الہام، ٢٤٦)
"سنہ ٥٧ء کے بعد سے رفتہ رفتہ زبان کی چھیڑ شروع ہوتی ہے" (١٩٣٨ء، خطبات عبدالحق، ١٥٠)
تتلیوں کی چھیڑ پھولوں سے چلی اس طرح لپٹیں کہ بس توبہ بھلی (١٩٤٥ء، عروس فطرت، ٧١)
خوگر عشق کو آتا ہے مزا چھیڑوں میں تیرے زخموں کو بھی سمجھا دل نا کام لذیذ (١٩١١ء، نذر خدا، ٥٧)
"سرہڈسن تو طرح طرح کی چھیڑ سے شاہنشاہ کو ایسا دق کرتا تھا کہ . اور گراں گزرے" (١٩٠٧ء، نپولین اعظم، ٥، ٣٠٠)
"جس وقت سلطان نفس کا عقل پر مبسوط ہو جاتا ہے تو نفس کی سعی و کوشش فاسد ہو جاتی ہے اور اس کی چھیڑیں مذموم ہو جاتی ہیں" (١٨٨٨ء، تشنیف الاسماع، ٧٣)
ساز سے تیرے ہی چھیڑوں نے نکالے نغمے تیری آواز نے رکھ لی ہے ایک تار کی لاج (١٩١١ء، نذر خدا، ٥٤)
"اعضائے تناسل میں ایک قسم کی چھیڑ پیدا ہو کر فوراً تندی پیدا ہوجاتی ہے" (١٩١١ء، نشاط عمر، ١٠٠)
کیوں پہلے آر سی نے دکھائی کہ تم نے آنکھ کس کی طرف سے چھیڑ کی یہ ابتدا ہوئی (١٨٨٨ء، صنم خانۂ عشق، ٢٧٦)
چھیڑ کے جملے اور مرکبات
چھیڑ چھاڑ, چھیڑ خانی
چھیڑ english meaning
(SING. with (Plural) V.)colourcomplexionconditionetc.fishing rodfraudulent personfunharassmenthueirritationmolestationplaying the musical instrumentpleasantrypole (of spear ,etc)pole (of spear)spikenardstatethin long bamboovexation
شاعری
- عزت بھی بعد ذلتِ بسیار چھیڑ ہے
مجلس میں جب خفیف کیا پھر ادب ہے کیا - کرنا جگر ضرور ہے دل دادگاں کو بھی
وہ بولتا نہیں تو تم آپ ہی سے چھیڑ لو - دیکھیں گے اپنے دل کے تحمل کی کیفیت
ہم ان کو اور چھیڑ کے خودسر بنائیں گے - ذہن اور دل میں چھیڑ گیا کوئی سرد جنگ
اک سیلِ کشمکش کے مقابل کھڑا ہوں میں - جب کوندتی ہے بجلی‘ تب جانبِ گلستاں
رکھتی ہے چھیڑ میرے خاشاک آشیاں سے - صبا کی چھیڑ سے شیرازۂ گل کا بکھر جانا
یہ سب انداز دل کی چاک دامنی سے ملتے ہیں - عارضِ رنگیں پہ اُن کے رنگ سا کچھ آگیا
ان گلوں کو چھیڑ کر ہم نے گلستاں کردیا - نہ چھیڑ اس کو انگلی سے اے نیش زن تو
ابھی زخم فرقت ہے آلہ ہمارا - چھیڑ تو دیکھ پٹاخے کی طرح انشا نے
یوں کھا کر مجھے پٹ دینی سے پھوڑا کاغذ - اک حرف چھیڑ کا تو صریحاً نہ کہہ نظیر
چھیڑے تو پردے پردے میں اس پر جفا کو چھیڑ
محاورات
- باجن دے بجنتری سوتی پڑی نہ چھیڑ
- بھوکا ترک نہ چھیڑئے ہوجائے جی کا جھاڑ
- بھڑوں کے چھتے کو چھیڑنا
- بھڑوں کے چھتے کو مت چھیڑو
- بھڑں کے چھتے کو چھیڑنا
- تم تو مجھے چھیڑو گے
- جاگتے کو جگانا اس کو چھیڑنا ہے
- جنگل جاٹ نہ چھیڑے ہٹی بیچ کراڑ (کلال) بھوکا ترک نہ چھیڑے ہوجائے جی کا (جنجال) جھاڑ
- سادھو وہی سراہئے جو دکھیں دکھاویں نا۔ پھل پھول چھیڑیں ناہیں رہیں بگیچے ماں
- سادھو وہی سراہیے جو دکھیں، دکھاویں نا، پھل پھول چھیڑیں ناہیں رہیں بگیچے ماں