کانٹا کے معنی
کانٹا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ کان (ن غنہ) + ٹا }
تفصیلات
iہندی زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٥٨٢ء کو "کلمۃ الحقائق" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["(س کنٹک)","ایک آلہ جس سے کھانا کھاتے ہیں۔ اس کے آگے چار نوکیں ہوتی ہیں۔ مچھلی کھانے کی تین ہوتی ہیں","ایک آلہ جس میں کئی خمیدہ نوکدار کنڈیاں لگی ہوتی ہیں۔ اس سے کنوئیں میں سے ڈول وغیرہ نکالتے ہیں","پرندوں کی ایک بیماری جس میں دم کے پاس ایک پھنسی سے ہوتی ہے۔ اسے کاٹ کر اس جگہ کو داغ دیتے ہیں۔ یہ بیماری مہلک ہوتی ہے","سیہ یا جنگلی چوہے کا خار جو بدن پر نکلا ہوا ہوتا ہے","فتنہ پرداز","مچھلی پکڑنے کا خمیدہ نوکدار آلہ","مچھلی کی باریک ہڈیاں جو کھاتے ہوئے چبھتی ہیں","مرغ وغیرہ کے پاؤں کی لمبی ہڈی جو جوان ہونے پر نکل آتی ہے","وہ چوبی پنجہ جس سے زمیندار گھاس بھوسہ وغیرہ اٹھاتے ہیں"]
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- واحد غیر ندائی : کانْٹے[کان (نون غنہ) + ٹے]
- جمع : کانْٹے[کان (نون غنہ) + ٹے]
- جمع غیر ندائی : کانْٹوں[کان (نوں غنہ) + ٹوں (و مجہول)]
کانٹا کے معنی
"اب گلدانوں میں پھول کے بجائے کانٹے سجائے جاتے ہیں۔" (١٩٨٧ء، روز کا قصّہ، ٦٣)
"جس زمانے میں روپے کے سکےّ کا بازار میں چلن عام تھا میں نے دیکھا ہے کہ سنار روپے ترازو کے ایک پلڑے جسے کانٹا کہتے تھے، ایک تولے کے بانٹ کی جگہ رکھ کر سونے چاندی کا وزن کیا کرتے تھے۔" (١٩٨٨ء، اردو، کراچی، جولائی تا ستمبر، ١٢٨)
"پلڑوں میں برابر برابر بوجھ رکھا جائے اور کانٹا . مساوی بوجھ کے وزن سے ساکن ہو جائے۔" (١٩٤٦ء، موٹر انجینیر، ٣٢٦)
"ڈیڈی نے کانٹے سے ابلے ہوئے انڈے کو کچل ڈالا۔" (١٩٨٧ء، روز کا قصہ، ٨٨)
"میری آواز مچھلی کے کانٹے کی طرح گلے میں پھنس گئی۔" (١٩٨٧ء، شہاب نامہ، ١٣٨)
"اوس نازنین کا ڈول اندر چاہ کے پڑا ہے تم کانٹا لے کر اوس کو نکال دو۔" (١٨٨٧ء، گلدستہ حکایات، ٥٣)
ایک ادنٰی سی یہ کاوش ہے کہ جس نے دیکھا یار کے مرغِ نظر نے اوسے کانٹا مارا (١٨٥٨ء، دیوانِ برق، ٤٢)
"گھر میں سیھ کا کانٹا رکھنے سے لڑائی ہوتی ہے۔" (١٨٧٤ء، مجالس النسا، ٥٥:١)
اسیر قفس اڑ چلے تھے چمن میں پر اٹھتے ہی پنجرا گِرا کھل کے کانٹا (١٨٤٥ء، کلیات ظفر، ١٩:١)
"وہ اس کی طرف تیز تیز بڑھے اور ایک گھنٹے کے اندر اندر اس کشتی کو آلیا اور کانٹے پھینک کر اسے کھینچ لیا۔" (١٩٤٠ء، الف لیلہ و لیلہ، ٥٠٧:١)
"دراصل پولی ٹیکنیک کی جیپ ہی دونوں اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر اورر دو کانٹا بدلنے والوں کے اغوا کے لیے استعمال کی گئی ہے۔" (١٩٧٢ء، جنگ، کراچی، ٣ دسمبر، ١)
"ہم سب کانٹے پانی میں پھینک کر بیٹھ گئے۔" (١٩٤٨ء، پرواز، ١٨٢)
"پیٹ پر کانٹوں کی ایڑ کے نشان، منہ میں لجام کی رگڑ۔" (١٧٧٢ء، رسالہ سالوتر، ٤:١)
"لنگر کا حال سنو کہ جہاز میں بڑی بڑی چرخیاں ہوتی ہیں اور اس کے سرے میں بڑے بڑے بھاری لوہے کے کانٹے باندھتے ہیں۔" (١٨٦٤ء، نصیحت کا کرن پھول، ٦١)
"بازو بند یا جوشنوں کے ڈورے، مگر مزکیوں کا کانٹا، ان سب چیزوں کی طرف سے اطمینان کرلو کہ ٹھیک ہے۔" (١٩٠٨ء، صبح زندگی، ٥١)
"مریض جانور کے کانٹے کو چاقو سے کاٹ دیتے ہیں یا ہلدی کی گرہ جلا کر کانٹے کو داغ دیتے ہیں۔" (١٩٥٩ء، طبیب مرغی خانہ، ١٩٣)
"پیغمبر جو کلام پیش کر رہا ہے اس میں حکمت ہے، ایک متناسب نظام فکر ہے، غایت درجے کا اعتدال اور حق و صداقت کا سخت التزام لفظ لفظ جچا تُلا اور بات بات کانٹے کی تول پوری ہے۔" (١٩٧٨ء، سیرت سرور عالمۖ، ٢٥٧:٢)
"گلا کانٹے کی طرح خشک تھا۔" (١٩٨٧ء، شہاب نامہ، ١٠٩٧)
"ایک ہی کانٹا اس (گھڑی) میں ہو، جوہر ایک قسمت کو ایک ثانیے میں طے کرے۔" (١٩١١ء، مقدمات الطبیعیات، ٢٥٩)
"سبل (جالا) اس مرض . کی تین قسمیں ہیں اوّل سبل رطب: اس قسم میں آنکھوں کے اندر آنسو آتے ہیں . آنکھوں کی گہرائی میں ٹیس ہوتی ہے، اسی قسم کے اندر رگیں کانٹے میں نہیں آتیں۔" (١٩٣٦ء، شرح اسباب (ترجمہ)، ٤٦:٢)
"دو پھاوڑے یا کانٹے استعمال کیے جائیں۔" (١٩٢٣ء، تربیتِ جنگلات، ٢٦٩)
"صاحب "معرکہ آرا" نے اس کے . انداز روکنے کے بائیس نام۔ پیچوں کے چوراسی کل ایک سوچو بیس لکھے ہیں پھر اس کے اندازِ سلام طمانچہ، توڑ، کانٹا . دشمن کش وغیرہ کی تشریح کی گئی ہے۔" (١٩٢٥ء، اسلامی اکھاڑا، ٢١)
"میں ہی تو ان کی زندگی کا کانٹا ہو گئی۔" (١٩٣٦ء، پریم چند، پریم چالیسی، ١٦٨:٢)
تڑپاتی ہے کیوں نگہت گل لا کے قفس میں کیا بلبلِ ناشاد سے کانٹا ہے صبا کو? (١٩٣٦ء، حرفِ ناتمام، ١٠٥)
"رقعاتِ عالمگیری کے علاوہ جو مکاتیب شمالی ہند کے بزرگوں نے لکھے ہیں وہ اسی فارسی میں ہیں جو کانٹے میں تو لی جا سکتی ہے۔" (١٩٨٨ء، نگار (سالنامہ)، کراچی، ٢٤٩)
جاکے قاصد بھی غیروں میں شامل ہو گیا اور اک کانٹا نکل آیا مری تقدیر کا (١٨٩٩ء، شاد لکھنوی (نوراللغات))
"فارسی میں بھی میرزا کو چین نہ تھا ایک نہ ایک کانٹا ضرور لگا ہوا تھا۔" (١٩٠٣ء، مرزا حیات، چراغ دہلی، ٣٥)
یاروں کو کھٹکتے ہیں وطن میں نہ رہینگے کانٹا ہی ٹھیرے تو چمن میں نہ رہینگے (فرہنگ آصفیہ)
"گربیان کو بند کرلیا کرو اگرچہ ایک کانٹا ہی اس میں لگا لیا کرو۔" (١٩٦٠ء، کشکول، ٢٨)
"وہ تو کانٹا تھا، سیانا تھا اتنا خرانٹ تھا۔" (١٩٧٠ء، پاکستان کا بہترین ادب، ٢٠٠)
"ان میں صرف ایک مڑی ہوئی کٹیا یا کانٹا ہوتا ہے جس کو کان کے سوراخ میں ڈال دیتے ہیں، زیور کا بقیہ حصہ نیچے لٹکتا رہتا ہے۔" (١٩٧٩ء، عورت اور اردو زبان، ١٥٧)
گھر میں میرے تھا جو کبوتر مکھی خار یہ ہے کہ اس نے بھی کانٹا کیا (١٨٧٨ء، سخن بے مثال، ٢٩)
کانٹا کے مترادف
خار, پھانس
اٹکاؤ, بدخواہ, پھانس, تفریق, خار, خلش, دبلا, روک, سال, شوک, شوکہ, ضرب, عدو, لاغر, موذی, مہمیز, کنڈک, کھٹکا, کیل, ہک
کانٹا english meaning
leanthin
شاعری
- میں اپنے جسم سے کیسے کروں جُدا اس کو
کہ تیری راہ کا کانٹا بھی معتبر ٹھہرا - سحبت کے سوا کانٹا نہ وہ اس باغ میں پایا
جسے کہیے کہ اس کی آنکھ اس سے اس نے اٹکائی - بہت آنکھیں ہیں فرش راہ چلنا دیکھ کر لازم
کف نازک میں کانٹا چبھ نہ جائے کوئی مژگاں کا - کانٹا ہے ہر اک جگر میں اٹکا تیرا
حلقہ ہے ہر اک گوش میں لٹکا تیرا - کس طرح ہو نہ سوکھ کے کانٹا تن نزار
مژگاں کی یاد دل میں مرے خار خار ہے - یہ سن کے کیکئی نے غصہ میں اس کو ڈانٹا
میرے پتی کے حق میں تو جھاڑ کا ہے کانٹا - مہک پھول کی دے جو کانٹا ملے
عوض بکھ کے دونوں کو بکھما ملے - کانٹا ہے تیرے چہرہ گل گوں کے سامنے
خورشید ہے اگرچہ گل انتخاب صبح - الہٰی مجھے دامن گل عطا کر
میں کانٹا ہوں سارے گلستانیوں میں - آتی پاتی دھول دھپا کانا کوا نکی موٹھ
چڑیا کانٹا تیر گھنڈی گیان چوسر کھیلتے
محاورات
- اپنی دانو کو مچھلی دوسرے کی دانو کو کانٹا
- بدن سوکھ کر کانٹا ہوجانا
- جس کے سبب لڑائی ہو وہ آدمی نہیں۔ کانٹا ہے گھر میں سیہ کا یا گل کنیر کا
- جہاں پھول وہاں کانٹا
- دل سے کانٹا نکلنا
- دل سے کانٹا نکالنا
- دل میں کانٹا سا کھٹکنا
- دھنونتی کے کانٹا لگا دوڑے لوگ ہزار۔ نردھن گرا پہاڑ سے کوئی نہ آیا کار (یار)
- سوکن بری ہے چون کی اور ساجھے کا کام کانٹا برا کریل کا اور بدری کی گھام
- سوکھ کر کانٹا (سا) ہوجانا یا ہونا