کرنا کے معنی
کرنا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ کَر + نا }
تفصیلات
iسنسکرت زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور فعل استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["انتظام یا بندوبست عمل میں لانا","انجام کو پہنچانا","ایک قسم کی گلگل","بجا لانا","شروع کرنا","شعرا نے بہ تشدید دوم بھی باندھا ہے","شغل رکھنا","شغل میں رہنا","عمل میں لانا","مقرر کرنا"]
اسم
فعل لازم
کرنا کے معنی
دل حزیں کا نہ ٹپکا جو چشم تر سے لہو خزانِ غم کو میں اپنی بہار کر نہ سکا (١٩٦١ء، ہادی مچھلی شہری، صدائے دل، ١٥)
"جو چیزیں اللہ نے اپنے واسطے خاص کی ہیں . وہ چیزیں کسی اور کے واسطے کرنی جیسے سجدہ کرنا اور اس کے نام کا جانور کرنا اور اس کی منت ماننی اور مشکل کے وقت پکارنا . سو ان باتوں سے شرک ثابت ہو جاتا ہے۔" (١٨٣٠ء، تقویۃ الایمان، ١٥)
"یہ چوری . اس ترکیب سے ہوتی ہے جس کو کرنا کہتے ہیں۔" (١٨٩٢ء، اصول سراغ رسانی، ٢١)
"علی الصبح زاہدہ ڈولی کر ایک لڑکے کو ساتھ لے ہوٹل میں پہونچی۔" (١٩١٩ء، جوہر قدامت، ١٦٧)
"نفسانی خواہش پیغمبرۖ صاحب کو خدیجہؓ سے نکاح کرنے کی محرک نہ ہوئی ورنہ وہ اپنے سے پندرہ برس بڑی بیوہ صاحب اولاد کو نہ کرتے۔" (١٩٠٧ء، امہات الامہ، ٢٩)
اس کو رکھا اس کو چھوڑا ہے نگوڑا بے وفا چھوٹتے ہی اور کرلی مجھ سے بہتر دیکھ کر (١٩٢١ء، دیوان ریختی، ٤٥)
"اس گالی کا مزہ لیتے، اوہو ہو نہو، آہا ہا ہا دلی کا روڑا ہے کیا پری دماغ پایا ہے، کرتے آگے بڑھ جاتے۔" (١٩٦٢ء، گنیجنۂ گوہر، ٣٩)
"ایک عورت کو زبردستی دس مرد کر رہے ہیں۔" (١٨٧٧ء، طلسم گوہر بار، ١٤٣)
"اب ذرا بھی دیر دار ہوئی تو اس سے کچھ تعجب نہیں جو وہ کچھ کر کرا بیٹھے۔" (١٩٤٠ء، آغا شاعر قزلباش، ارمان، ١٤١)
"گلقند لب کا مزہ لیں یا چوب صبر زرد . کر کے منہ بنائیں۔" (١٩٣١ء، اودھ پنچ لکھنؤ، ١٦، ١٠:٤٣)
"شادی بھی بہت اولوالعزمی سے کرنا ہوگی کیونکہ دونوں طرف سے یکساں کرنا ہوتا ہے۔" (١٩٦٤ء، نور مشرق، ١٨)
اس سے بھی کر رکھیے سب اظہار حال رفع ہو شاید یہیں رنج و ملال (١٨٢٨ء، مثنوی مہر و مشتری، ٩١)
"تم میرا کچھ نہیں کر سکتے۔" (١٩٢١ء، لڑائی کا گھر، ٣٥)
"ہوتا ہے تقدیر کا کرنا، لے مرد تدبیر نابسرنا۔" (١٩٣٥ء، سب رس، ١٣٣)
کرنا english meaning
(of crowd) thin(of edge) wear out(same as قرنا N.M.*)a kind of citron used for picklingcitron budto be abashedto become notchedto wear out
شاعری
- رہ گزر سیل حوادث کا ہے بے بُنیاد دہر
اس خرابے میں نہ کرنا قصد تم تعمیر کا - کرنا جگر ضرور ہے دل دادگاں کو بھی
وہ بولتا نہیں تو تم آپ ہی سے چھیڑ لو - گرچہ جرم عشق غیروں پر بھی ثابت تھا وے
قتل کرنا تھا ہمیں ہم ہی گنہگاروں میں تھے - کام ہے مشکل الفت کرنا اس گلشن کے نہالوں سے
بوکش ہوکر سیب ذقن کا غش نہ کرے تو سزا ہے عشق - ابھی تو دل میں ہے جو کچھ بیان کرنا ہے
یہ بعد میں سہی کس بات سے مُکرنا ہے - آنکھ رکھتے ہو تو اس آنکھ کی تحریر پڑھو
مُنہ سے اقرار نہ کرنا تو ہے عادت اُس کی - بچھڑنا اس قدر آساں ہوا ہے
تو پھر ملنے کی بھی تدبیر کرنا - بُھلا کے وہ ہمیں حیران ہے تو کیا کہ ابھی
اسی طرح کا ہمیں بھی کمال کرنا ہے - ترے کوچے ہر بہانے مجھے دن سے رات کرنا
کبھی اس سے بات کرنا‘ کبھی اُس سے بات کرنا - ٹھہرے جو مرا ذکر ضروری تو کسی طور
میرے لئے مخصوص کوئی باب نہ کرنا
محاورات
- (پر) تکیہ کرنا
- (پر) جان تصدق کرنا
- (تلوار) میان میں کرنا
- (سے) پہلو تہی کرنا
- (قسمت کا) لکھا پورا کرنا
- (نیست و) نابود کرنا
- (کا) قرب حاصل کرنا
- (کی طرف) منہ نہ کرنا
- (کی طرف) منہ نہ کرنا
- آئیں بائیں شائیں کرنا