کسنا کے معنی
کسنا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ کَس + نا }
تفصیلات
iپراکرت زبان سے ماخوذ مصدر ہے۔ اردو زبان میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور فعل متعدی و لازم اور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٥٣٤ء کو "دیوان محمود دریائی (ق)" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["(آوازے) پھینکنا","(تلوار) جھکا کر اس کی آزمائش کرنا","(ٹنڈیاں) مشکیں باندھنا","آدمی کا امتحان ہونا","پانی خشک کرنا","سونے چاندی کا پرکھنا","قیمت بڑھانا","گھی بگھارنا","مول زیادہ کرنا","کم تولنا"]
اسم
فعل متعدی, اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- ["واحد غیر ندائی : کَسْنے[کَس + نے]","جمع : کَسْنے[کَس + نے]","جمع غیر ندائی : کَسْنوں[کَس + نوں (واؤ مجہول)]"]
کسنا کے معنی
[" دیکھا جو آنکھ بھر کے تو بازو سمٹ گئے باہوں میں بھر لیا تو بدن اور کس گیا (١٩٧٥ء، پچھلے پہر، ٢٨)","\"غریب غربا مٹکے سروں پر اوندھائے، لنگوٹ کسے، چیخیں اڑاتے گاتے بجاتے جا رہے ہیں، قطب کی لاٹ تک آدمی ہی آدمی ہوتا تھا۔\" (١٩٤٧ء، مضامین فرحت، ٥٦:٣)","\"صیرفی سونے کو کسوٹیوں پر کس کر عیار مقرر کرتا ہے۔\" (١٨٩٧ء، تاریخ ہندوستان، ٥، ٦١٩:٢)","\"مال کو کسوٹی پر کس کے رکھ دیں گے۔\" (١٩٨٦ء، مقالات عبدالقادر، ٢٠٥)","\"پھلکیاں تلے اور وہ پھلکیاں ہمراہ کباب یا قورمہ لعابدار کے کسے اور قدرے پانی دے کر پکاوے۔\" (١٩٣٠ء، جامع الفنون، ٢٩:٢)"," لگاؤ بڑھ کے عناصر کے منہ میں جلد لگام کہ ان کی پشت پہ میں کس چکا ہوں زینوں کو (١٩٥٣ء، سموم و صبا، ١٦)","\"(اپنی مٹھی کس کے، دھمکا کر) نہیں یہ غلط ہے آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔\" (١٩٤٠ء، معمار اعظم، ١٥٧)"," کسی (کسے) شاہ اپنی یوں اسی نار کوں چمک کھینچ لیتا ہے جیوں سار کوں (١٦٠٩ء، قطب مشتری، ٨٢)","\"پھر اس کو یہ فکر ہوئی کہ دستے کے پیچ کو کس دے۔\" (١٩٣٢ء، عالم حیوانی، ٥٧٧)","\"گاجر چھیل کر کس لیں۔\" (١٩٨٥ء، سعدیہ کا دسترخوان، ١٦٩)"," ان کو سمجھا جو تیرے کوچے میں رہتے ہیں مدام ہم پہ دن رات یہ آوازے کسا کرتے ہیں (١٨٢٤ء، دیوان مصحفی، (انتخاب رامپور)، ١٥١)","ترکی وضع کا پائیجامہ پہنے ہوئے ہیں جس کے پائنچے ٹخنوں کے پاس کسے ہوئے ہیں۔\" (١٩٠٧ء، شوقین ملکہ، ٨)"," آئینہ دیکھوں تو ایک چہرے کے بے رنگ نقوش ایک نادیدہ سی زنجیر میں کستے جائیں (١٩٧٦ء، دریا آخر دریا ہے، ٤٨)","\"جس وقت انسان سخت کسا ہوا ہو تو خیالات کی آمد ہوتی ہے۔\" (١٩٤٠ء، معاشیات ہند (ترجمہ)، ٧١١:١)"," کس قدر کس رہی ہے تیغِ اجل جھکتے جھکتے کمان ہوتی ہے (١٩١٨ء، سحر (سراج منیر خان) بیاضِ سحر، ٩٠)"," اب پیدلوں کی حد نہ سواروں کی انتہا مجمع سے کس گیا ہے بیابانِ کربلا (١٩٠٠ء، مراثی فارغ، ١٩٤:٦)"," آسرے بڑھتے تھے رونے سے ترس آنے کے بھیگ جاتے تھے جو بندھن کو بہت کستے تھے (١٩٣٨ء، سریلی بانسری، ١٠٤)"]
["\"ایک خوشنما سونے کا جڑاؤ پلنگ اس پر زری باف کا ادقچہ اور ایسے مقیشی کسنے . کسے ہوئے تھے۔\" (١٨٠٢ء،نثر بےنظیر، ٣٧)","\"خاصدان گلوریوں سے بھر کر کار چوبی کسنوں میں سامنے رکھ دئیے۔\" (١٩٦٤ء، نورمشرق، ٣٣)","\"چھالیا پرانی ڈھونڈ کر لائی جاتی ہے بھابھی اسے سڈول اور باریک کاٹ کر کسنے بھرے رکھتی ہیں۔\" (١٩٦٢ء، گنجینۂ گوہر، ٢٦٠)","\"خوان کسنوں میں کسے گئے اور اوپر سے خوان پوش ڈالے گئے۔\" (١٩٠٠ء، ذات شریف، ٤٢)"]
محاورات
- آوازہ (آوازے) کسنا
- آوازے آنا۔ پھینکنا۔ سنانا۔ کرنا۔ کسنا
- اسواری کسنا
- اوازے توازے کسنا
- دھر کے کسنا
- مشکیں باندھنا (یا کسنا)
- کان اینٹھنا (یا کسنا)
- کسوٹی پر پرکھنا (یا کسنا یا لگانا)
- کسوٹی پر چڑھانا ۔ کسنا یا لگانا
- کمر باندھنا یا کسنا