کشاں کے معنی

کشاں کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ کَشاں }

تفصیلات

iفارسی مصدر |کشیدن| کے صیغہ امر |کش| کے ساتھ |اں| بطور صیغۂ حالیہ ناتمام ملنے سے |کشاں| بنا۔ اردو میں بطور فعل متعلق اور صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٧١٨ء کو "دیوانِ آبرو" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["خطوط اندازي","خطوط کشي","نقشہ کَشی","کھینچتے ہوئے"]

اسم

صفت ذاتی, متعلق فعل

کشاں کے معنی

["١ - کھینچنے والا۔","٢ - کھنچا ہوا، مائل، ملتفت۔"]

[" گو اسپرگل ہوں لیکن نکہت گل کی طرح مجھ کو سوئے اصل ہے ہر دم کشاں جذب ہوا (١٨١٧ء، نظم ارجمند، ٤)"," پیری سیں قد کماں ہے ہر چند آبرو کا اوس نوجواں کی جانب دل اب تلک کشاں ہے (١٧١٨ء، دیوان آبرو، ٦٢)"]

["١ - کھینچتے ہوئے، کھینچتا ہوا۔"]

[" تھانہ بے وجہ بلکہ تھا یہ نشاں کہ چلا تھا وہ ایک پاؤں کشاں (١٨١٠ء، ہشتِ گلزار، ٢٣)"]

کشاں کے جملے اور مرکبات

کشاں کشاں

شاعری

  • باغباں ہم سے خشونت سے نہ پیش آیا کر
    عاقبت نالہ کشاں بھی تو ہیں درکار چمن
  • اٹھ گیا دامن کشاں ظالم عدالت گاہ سے
    عشق چیخ اٹھا کہ قربان ادائے دل نشیں
  • مجنوں وہ بے نیاز تو ہم بے نیاز تر
    ہم دست کش رہے جو وہ دامن کشاں رہے
  • دامن کشاں کرشمہ آواز اب نہیں
    راز و نیاز چشم فسوں ساز اب نہیں
  • دو زانوں بیٹھے آو، لشکر کشاں
    سوچو گردٹھاڑے رہے سر کشاں
  • یہ دستِ ظلم بس اب ہم پہ دلستان نہ اٹُھا
    ہمیں تُو کوچے سے اپنی کشاں کشاں نہ اُٹھا
  • گر دست کشاں جذبہ تو فیق ہو تیرا
    تو پہنچوں و گرنہ نہیں مقدور قدم کا
  • ساقی پہنچ شتابی رو رو کے مے کشاں نے
    خالی کیا ہے اپنے جام جہاں نما کو
  • سوجھ بوجھ ان کی نہ ہو کیوں‘ نہ رہی میخواری
    چشم ہے جام و دل بادہ کشاں ہے شیشہ
  • ہنگامہ میری نعش پہ تیری گلی میں ہے
    لے جائیں گے جنازہ کشاں یاں سے کب مجھے

محاورات

  • قضا کا کشاں کشاں یا کھینچکر یا گھیر کر لانا

Related Words of "کشاں":