کشش کے معنی

کشش کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ کَشِش }

تفصیلات

iفارسی زبان کے مصدر |کشیدن| سے مشتق حاصل مصدر ہے۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["(کشتن مارنا)","ان بن","حرف کا دائرہ یا لمبائی","دل پذیری","دل رُبائی","قوتِ جاذبہ","مار ڈالنا","ناز و کرشمہ","ناز کی چال","کھینچنے کی قوت"]

اسم

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )

کشش کے معنی

١ - کھینچنے کی قوت، کھچاوٹ، کھینچ، قوتِ کشش۔

"دو ایٹموں کی باہمی کشش کے باعث پیدا ہونے والے اس تعلق کو جس کے نتیجے میں یہ ایٹم ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کر لیتے ہیں کیمیائی بونڈ کہلاتے ہیں۔" (١٩٨٥ء، نامیاتی کیمیا، ٧٠)

٢ - کھینچاؤ، لگاؤ، دل کشی، رغبت۔

"ان کے لیے اگر کہیں کشش ہے تو ان چیزوں میں جواب گم ہو چکے ہیں۔" (١٩٨٤ء، زمیں اور فلک اور، ١١١)

٣ - [ کنایۃ ] تکلیف، مصیبت، تنگی، پریشانی۔

 چہروں پہ ہے خوف سے سفیدی یہ بھی ہیں اس کشش کے قیدی (١٩٨٤ء، سمندر، ٤٦)

٤ - تگ و دو، دوڑ دھوپ، جدوجہد، کشمکش۔

"ماموں نے جس بات کی تمنا میں جان دی بہت کچھ پاپڑ بیلے اور نہ ملی بھانجے کو بے کوشش و کشش باتوں باتوں میں مل گئی۔" (١٩١٢ء، شباب لکھنؤ، (مقدمہ)، ١١)

٥ - [ کنایۃ ] ان بن، جھگڑا، کھینچا تانی۔

 دیکھیے اب میری اوس کی یہ کشش کب تک رہے میں عدو سے کھنچتا ہوں وہ مجھ سے کھنچتا جائے ہے (١٨٨٨ء، دیوان شور، ١٧٩)

٦ - [ خطاطی ] حرفوں کا کھنچاؤ جیسے: ب، ش، ف وغیرہ کی کشش۔

"دندانے دارس کے بجائے کشش دارس بنایا جائے۔" (١٩٧٤ء، اردو املا، ١٦٤)

٧ - [ تصوف ] شدت طلب، جذب، خضوع و خشوع۔

"میاں جان محمد بمقام پرویز آباد میں بیاد الٰہی مصروف تھے، ان کو الہام ہوا کہ میاں صاحب کو تمہاری کشش ہے وہ وہاں سے اٹھا کر ان کی خدمت میں بمقام گنج پورہ حاضر ہوئے۔" (١٨٦٧ء، تحقیقات چشتی، ٤٦٧)

کشش کے مترادف

جذبہ, جذب, ناز, کھچاؤ, مد

تاخیر, تکلیف, جذب, جھگڑا, دلربا, ذبح, رغبت, سختی, عشوہ, غمزہ, قتل, قربانی, لڑائی, مصیبت, میل, میلان, وقفہ, ڈھیل, کشیدن, کھنچاؤ

کشش کے جملے اور مرکبات

کشش اتصال, کشش حرف, کشش جاذبہ, کشش ارض, کشش ثقل, کشش زمیں, کشش شعری

کشش english meaning

a drawing; a pull; attraction; allurement; curve or sweep (of a letter in writing); lingeringtardinessdelay; trialdifficultypressure; discorddifferencemisunderstanding.affinity [P~کشیدن]pull

شاعری

  • فرق

    کہا اُس نے دیکھو‘
    ’’اگر یہ محبت ہے‘ جس کے دو شالے
    میں لپٹے ہوئے ہم کئی منزلوں سے گزر آئے ہیں!
    دھنک موسموں کے حوالے ہمارے بدن پہ لکھے ہیں!
    کئی ذائقے ہیں‘
    جو ہونٹوں سے چل کر لہُو کی روانی میں گُھل مِل گئے ہیں!

    تو پھر اُس تعلق کو کیا نام دیں گے؟
    جو جسموں کی تیز اور اندھی صدا پر رگوں میں مچلتا ہے
    پَوروں میں جلتا ہے
    اور ایک آتش فشاں کی طرح
    اپنی حِدّت میں سب کچھ بہاتا ہُوا… سنسناتا ہُوا
    راستوں میں فقط کُچھ نشاں چھوڑ جاتا ہے
    (جن کو کوئی یاد رکھتا نہیں)
    تو کیا یہ سبھی کچھ‘
    اُنہی چند آتش مزاج اور بے نام لمحوں کا اک کھیل ہے؟
    جو اَزل سے مری اور تری خواہشوں کا
    انوکھا سا بندھن ہے… ایک ایسا بندھن
    کہ جس میں نہ رسّی نہ زنجیر کوئی‘
    مگر اِک گِرہ ہے‘
    فقط اِک گِرہ ہے کہ لگتی ہے اور پھر
    گِرہ در گِرہ یہ لہو کے خَلیّوں کو یُوں باندھتی ہے
    کہ اَرض و سَما میں کشش کے تعلق کے جتنے مظاہر
    نہاں اور عیاں ہیں‘
    غلاموں کی صورت قطاروں میں آتے ہیں
    نظریں جُھکائے ہوئے بیٹھ جاتے ہیں
    اور اپنے رستوں پہ جاتے نہیں
    بات کرتے نہیں‘
    سر اُٹھاتے نہیں…‘‘

    کہا میں نے‘ جاناں!
    ’’یہ سب کُچھ بجا ہے
    ہمارے تعلق کے ہر راستے میں
    بدن سنگِ منزل کی صورت کھڑا ہے!
    ہوس اور محبت کا لہجہ ہے یکساں
    کہ دونوں طرف سے بدن بولتا ہے!
    بظاہر زمان و مکاں کے سفر میں
    بدن ابتدا ہے‘ بدن انتہا ہے
    مگر اس کے ہوتے… سبھی کُچھ کے ہوتے
    کہیں بیچ میں وہ جو اِک فاصلہ ہے!
    وہ کیا ہے!
    مری جان‘ دیکھو
    یہ موہوم سا فاصلہ ہی حقیقت میں
    ساری کہانی کا اصلی سِرا ہے
    (بدن تو فقط لوح کا حاشیہ ہے)
    بدن کی حقیقت‘ محبت کے قصے کا صرف ایک حصہ ہے
    اور اُس سے آگے
    محبت میں جو کچھ ہے اُس کو سمجھنا
    بدن کے تصّور سے ہی ماورا ہے
    یہ اِک کیفیت ہے
    جسے نام دینا تو ممکن نہیں ہے‘ سمجھنے کی خاطر بس اتنا سمجھ لو
    زمیں زادگاں کے مقدر کا جب فیصلہ ہوگیا تھا
    تو اپنے تحفظ‘ تشخص کی خاطر
    ہر اک ذات کو ایک تالہ ملا تھا
    وہ مخصوص تالہ‘ جو اک خاص نمبر پہ کُھلتا ہے لیکن
    کسی اور نمبر سے ملتا نہیں
    تجھے اور مجھے بھی یہ تالے ملے تھے
    مگر فرق اتنا ہے دونوں کے کُھلنے کے نمبر وہی ہیں
    اور ان نمبروں پہ ہمارے سوا
    تیسرا کوئی بھی قفل کُھلتا نہیں
    تری اور مری بات کے درمیاں
    بس یہی فرق ہے!
    ہوس اور محبت میں اے جانِ جاں
    بس یہی فرق ہے!!
  • ہیلن
    (مارلو کے اشعار کا آزاد ترجمہ)
    ’’یہی وہ چہرہ تھا
    جس کی خاطر ہزار ہا بادبان کُھلے تھے
    اسی کی خاطر
    منار ایلم کے راکھ بن کر بھسم ہوئے تھے
    اے میری جانِ بہار ہیلن!
    طلسمِ بوسہ سے میری ہستی امر بنادے
    (یہ اس کے ہونٹوں کے لمسِ شیریں میں کیا کشش ہے کہ روح تحلیل ہورہی ہے)
    اِک اور بوسہ
    کہ میری رُوحِ پریدہ میرے بدن میں پلٹے
    یہ آرزو ہے کہ ان لبوں کے بہشت سائے میں عُمر کاٹوں
    کہ ساری دُنیا کے نقش باطل
    بس ایک نقشِ ثبات ہیلن
    سوائے ہیلن کے سب فنا ہے
    کہ ہے دلیلِ حیات ہیلن!
    اے میری ہیلن!
    تری طلب میں ہر ایک ذلّت مجھے گوارا
    میں اپنا گھر بارِ اپنا نام و نمود تجھ پر نثار کردوں
    جو حکم دے وہ سوانگ بھرلوں
    ہر ایک دیوار ڈھا کے تیرا وصال جیتوں
    کہ ساری دنیا کے رنج و غم کے بدل پہ بھاری ہے
    تیرے ہونٹوں کا ایک بوسہ
    سُبک مثالِ ہوائے شامِ وصال‘ ہیلن!
    ستارے پوشاک ہیں تری
    اور تیرا چہرہ‘ تمام سیّارگاں کے چہروں سے بڑھ کے روشن
    شعاعِ حسنِ اَزل سے خُوشتر ہیں تیرے جلوے
    تُمہیں ہو میری وفا کی منزل…!
    تُمہیں ہو کشتی‘ تمہیں ہو ساحل‘‘
  • نہیں وہ خواہش نجات میں بھی
    جو کشش دامنِ گناہ میں ہے!
  • عجب کشش تھی سمندر کی سبز آنکھوں میں
    ہرایک چشمہ اُسی کی طرف روانہ تھا
  • تمام رنگ اُڑے جارہے تھے اُس کی طرف
    عجب طرح کی کشش آفتابِ شام میں تھی
  • مرکز جذب و کشش ہے وہ نگاہ بینا
    ٰحوریں لب چاٹتی ہیں آنکھوں میں رس ہے ایسا
  • کشش مرکز کی رشک برق نقطہ غیرت اختر۔ بلال و بدر ساں روشن ہو ہر حلقہ دوائر کا
  • کشش مرکز کی رشک برق نقطہ غیرت اختر
    بلال و بدر ساں روشن ہو ہر حلقہ دوائر کا
  • کشش عشق نے لیلا کو دکھائی تاثیر
    آج مجنوں کی طرف ناقہ بہت تیز آیا
  • کشش دل کی ہوئی بیٹھی ہے موہنی
    کشش میں عشق کے سودا کی بہنی

محاورات

  • کشش آنا بیب شعری
  • کشش کے دن نکلنا

Related Words of "کشش":