کشود

{ کَشُود }

تفصیلات

iفارسی زبان میں |کشودن| مصدر سے حاصل مصدر ہے جو اردو میں اپنے ماخذ معانی و ساخت کے ساتھ بطور اسم نیز بطور صفت استعمال ہوتا ہے تحریراً سب سے پہلے ١٨١٠ء کو"مثنوی ہشت گلزار" میں مستعمل ملتا ہے۔

["کَشُودَن "," کَشُود"]

اسم

صفت ذاتی ( مذکر ), اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )

کشود کے معنی

["١ - کھلا، پھیلا ہوا، کشادہ اور عریض (جامع اللغات؛ پلیٹس)"]

[" ہم پر کشود زُلفِ بُتاں سے کھلے وہ راز کھلتے نہ تھے جو گوشہ نشینانِ راز پر (١٩٦٨ء، غزال و غزل، ٢٧)"," میلادِ مرتضٰی سے دلوں کی کشود ہے خوشبو کے ساتھ غنچوں کے منہ میں دُرود ہے (١٨٨٩ء، میلادِ معصومین، ٢١٥)","\"کولہو کے بیل کی طرح جُتا رہتا ہوں مگر سب بے سُود، انجام مراد و کشود کار بہر نوع مفقود ہے۔\" (١٩٠١ء، الف لیلہ، سرشار، ٤٤)"," مطرب ایسا کچھ سنا جس سے کہ ہو دل کو کشود ایک سن کر ہی ترا کھٹ راگ آئے ہم تو ہیں (١٨٤٩ء، کلیات ظفر، ٨٢:٢)","\"وجود و شہود کی بحث محض کشود کے ذریعہ سمجھی جا سکتی ہے۔\" (١٩١٦ء، سوانح خواجہ معین الدین چشتی، ٤٦)"]

["١ - کھلنا، ظاہر ہونا، وا ہونا، بکھرنا؛ (مجازاً) کسی مشکل یا مسئلے کا حل۔","٢ - فراخی، پھیلاؤ، کشادگی۔","٣ - مطلب حل ہونا، مقصد براری، مراد پوری ہونا، کامیابی، فائدہ۔","٤ - مسرت، خوشی۔","٥ - [ تصوف ] کشف، مکاشفہ۔"]