کھٹکا کے معنی
کھٹکا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ کَھٹ + کا }
تفصیلات
iپراکرت زبان سے ماخوذ |کھٹکنا| کا حاصل مصدر ہے۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٦٤ء کو "دیوانِ حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["(لگانا ۔ لگنا کے ساتھ)","آواز کی کُنکری","پاؤں کی آواز","خفیف سی آواز جو کسی چیز کے گرنے سے ہو","دو چیزوں کے ٹکرانے کی آواز","قفل کا وہ حصہ جو اسے بند کردیتا ہے (بگڑنا۔ ٹوٹنا وغیرہ کے ساتھ)","منتر میں آواز کا جھٹکا","وہ بانس کا ٹکڑا جو پھلدار درختوں میں پرندوں اور جانوروں کے ڈرانے کو باندھ دیتے ہیں (صرف ان معنوں میں باندھنا ۔ بندھنا ۔ لگانا۔ لگنا۔ ہلانا۔ ہلنا کے ساتھ)","کسی چیز کے ٹکرانے یا گرنے کی آواز","کھٹکانا کا"]
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع : کَھٹْکے[کَھٹ + ک]
- جمع غیر ندائی : کَھٹْکوں[کَھٹ + کوں (واؤ مجہول)]
کھٹکا کے معنی
"ایک روز میں پڑا سورہا تھا کہ یکایک کھٹکے سے ایک دم آنکھ کھل گئی۔" (١٩٤٧ء، فرحت مضامین، ١٣٣:٦)
"تیرے کوچے میں چوری سے بھی میں تو آنہیں سکتا کہ کھٹکا پاؤں کا تیرے خلل انداز سنتے ہیں۔" (١٨٤٩ء، کلیاتِ ظفر، ٧٧:٦)
جان کی تہ میں کوئی بیٹھا ہے ایک بے چینی اور کھٹکا ہے (١٩٢٧ء، سریلے بول، ٩٤)
نہیں ہاتھ اپنا اوس دھانی قبا پر درخت سبز میں کھٹکا لگا ہے (١٨٥٨ء، دیوانِ امانت، ٩٧)
"ہاتھ بڑھا کر اس نے کھڑکی کا کھنکا کھولا۔ (١٩٦٧ء، یادوں کے چراغ، ١٩٨)
"بجلی کی روشنی کا یہ حال ہے کہ ایک کھٹکا کھولا سارا گھر روشن ہو گیا۔" (١٩٢٦ء، سرگزشت، ہاجرہ، ٥٥)
"ہمارے زمانے کی توپوں کے بریچ میں کئی قسم کی پکڑ ہوتی ہے، بعض میں کھٹکا ہوتا ہے۔" (١٩٣٢ء، افسرالملک، تفنگ بافرہنگ، ١٩)
"نکلس کا کھٹکا بگڑ گیا ہے۔" (١٩٥٦ء، رادھا او رنگ محل، ٤٥)
"اگر آپ ٹیلی گراف کوڈ کی مشق کرنا چاہتے تو اس کے لیے جو آلہ ملتا ہے اور جسے |کھٹکا| بولتے ہیں، سوئچ کی بجائے لگا لیں۔" (١٩٧٠ء، ٹرانسسٹر کے کرشمے، ١٠٣)
"افریقہ کے قدیم باشندے ہپو کو اکثر کھٹکوں کے ذریعے سے پکڑا کرتے ہیں۔" (١٩٣٢ء، عالم حیوانی، ١٥٥)
پہلے گھڑی نے اپنا کھٹکا دل کے کھٹکے سے ملا دیا اور اس طرح گویا اس نے دل کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا۔" (١٩١٣ء، سی پارۂ دل، ٢٠٥)
"نوجوان اور لڑکے جن کے گلے میں ذراسا کھٹکا ہوتا تھا بے بلائے مولانا کی خدمت میں آتے تھے۔" (١٩٣٣ء، فراق دہلوی، مضامین، ٧٧)
"یہ الفاظ کسی طرح کانوں کو ایک خاص متناسب کھٹکا دیتے ہیں۔" (١٩١٤ء، شبلی، حیات حافظ، ٥١)
"ہماری زندگی کا آہنگ بدل گیا ہے اس تبدیلی کو ریل کی آواز کے کھٹکوں . میں محسوس کر سکتے ہیں۔" (١٩٤٣ء، آج کل، دہلی، ١٥ جولائی، ٢٤)
"انہیں یہ بھی کھٹکا ہے کہ صراف کے بعد ان کی باری بھی آنے والی ہے۔" (١٩٨٢ء، آتش چنار، ٥٩٠)
"قحط سالیوں جیسی آفتوں کے اثر کا بھی . کھٹکا ہندوستان . کو ہر آن لگا رہا ہے۔" (١٩٤٠ء، معاشیات ہند (ترجمہ)، ١٨٦:١)
"اللہ تعالٰی نے . ایک کھٹکا دل میں ایسا لگا دیا کہ جہاں آدمی ذرا صراط مستقیم سے ڈگمکایا اور اس نے ٹوکا۔" (١٩٠٦ء، حکمت عملی، ١٣٦)
کھٹکا کے مترادف
چاپ, کھڑکا, کھٹک
آہٹ, اندیشہ, بلّی, تردد, تڑاخا, چاپ, چبھن, چنکنی, چٹخنی, چیس, خلش, عصا, فکر, لاٹھی, ٹیس, ڈر, کسک, کھٹاکا, کھٹک, کھڑکا
کھٹکا english meaning
knockingrappingrattling (of a stick); knockraprattling soundor noiseclatter; sound of footsteps; a rattleclapper (to scare away birds); a boltcatch; a pricking or ranking (in the mind); offence; a catch or hitch (in the mind); offence; a catch or hitch (in doubtsuspense; perturbationanxietyareconcern; apprehensionfeardread; loss; a shake or trill (in musicor in a voice)hitch in the mindscruple
شاعری
- پڑیا آو بھارت کے تیں سیام داس
کھیا رام کھٹکا جتا رام داس - خدا ساز اے صنم ہے وہ تری آواز میں کھٹکا
ادھر میں وجد میں آیا ادھر مطرب نے سرپٹکا - دل کو یوں لیتے ہو کھٹکا نہیں ہونے پاتا
تربیت پائی ہے تم نے کسی عیار کے پاس - ہوس گل کا تصور میں بھی کھٹکا نہ رہا
عجب آرام دیا بے پر وبالی نے مجھے - ہو پاک دامنوں کو خلش گر سے کیا خطر
کھٹکا نہےں نگاہ کو مژگاں کے خار کا - ہوس گل کا تصور میں بھی کھٹکا نہ رہا
عجب آرام دیا بے پروبالی نے مجھے - جب تک جیا فنا ہی کا کھٹکا لگا رہا
شام و سحر اجل کا تقاضا لگا رہا - یہ بدگمان ہے دل اس نگوڑے نٹ کھٹ کا
لگایا میں نے جو سرمہ موئے کا دل کھٹکا - طریقِ عشق میں مارا پڑا جو دل بھٹکا
یہی وہ راہ ہے جس میں ہے جان کا کھٹکا - راستی سیدھی سڑک ہے جس میں کچھ کھٹکا نہیں
کوئی رہرو آج تک اس راہ میں بھٹکا نہیں
محاورات
- آواز میں کھٹکا ہونا
- الف کے نام بے (کتک یا کھٹکا) نہیں جانتا
- کھٹکا لگا رہنا
- کھٹکا لگنا
- کیل کا کھٹکا نہ ہونا
- کیلی کا کھٹکا نہ ہونا