کھیل کے معنی

کھیل کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ کھیل (ی مجہول) }

تفصیلات

iپراکرت سے اردو میں ماخوذ ہے اور عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔, m["ایک بات","بُھنا ہوا سہاگہ یا پھٹکری جو آگ کی گرمی سے کھل جاتا ہے (س کیلا)","بُھنے ہوئے چاول یا اناج جو پھول گیا ہو","تھوڑی سی چیز","چھوٹی سی چیز","عجائبات قدرت","وہ تاند یا حوض جس میں مویشی کو پانی پلاتے ہیں","وہ کام جو لوگ تفریح طبع یا کسرت کے لئے کریں","کھلنا سے","کھیلنا کا"]

اسم

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )

اقسام اسم

  • جمع غیر ندائی : کھیلوں[کھے + لوں (و مجہول)]

کھیل کے معنی

١ - بازی، لہو و لعب، تماشا۔

"کھیل شروع اس طرح ہوتا ہے، دونوں میرا آپس میں یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ پہلے کوڑی کون چھپائے۔" (١٩٢٨ء، کھیل بتیسی، ١٠)

٢ - وہ تماشا جو کرتب کر کے دکھایا جائے، نٹ بازی، شعبدہ بازی، سوانگ، ناٹک وغیرہ۔

"رادھا اور کنھیا کی داستان محبت پر مبنی ایک ناٹک لکھ کر اس کا کھیل تیار کیا۔" (١٩٨٨ء، لکھنؤیات ادب، ١٩٤)

٣ - کوئی تفریحی عمل یا مشغلہ، دل بہلاوا۔ سیر تماشا، مشغلہ، شغل

"نوجوانوں کا امتحان ہوتا تھا کہ دیکھیں کون ایک ہاتھ میں گردن جدا کرتا ہے، یہ تو روزمرہ کا کھیل تھا۔" (١٩٠٣ء، سرستار، بچھڑی ہوئی دلہن، ٨٦)

٤ - سہل، آسان، سہج نیز مہمولی کام، بات یا چیز۔

"ان کی ذات سے مجھے بڑی تقویت تھی اور بڑے بڑے کام کھیل معلوم ہوتے تھے۔" (١٩٣١ء، مکتوباتِ عبدالحق، ٣٦٢)

٥ - کاری گری، نیرنگ سازی، نیرنگی، کرشمہ۔

"ڈراما محض الفاظ کا کھیل ہے اور نہ اس کا دائزہ عمل صرف پڑھنے اور سننے تک محدود ہے۔" (١٩٨٦ء، اردو اسٹیج ڈراما، ١٤)

٦ - کام کاج، دھندا، مشغلہ۔

"بس تمہیں ایک ہی کھیل آتا ہے ماں، مٹی کی گڑیاں بناتی رہو۔" (١٩٨٧ء، روز کا قصہ، ٤٧)

٧ - سازش، چال۔

"مسلمان اس کھیل کو اچھی طرح سمجھ رہے تھے۔" (١٩٧٥ء، ہمارے قائداعظم، ٣٨)

کھیل کے مترادف

بازی, بازیچہ, چوچلا, سپورٹس, تماشا, لیلا

بازی, بازیچہ, بھوگ, تماشا, تمثیل, جماع, سوانگ, سیر, شغل, لعب, مشغلہ, ناٹک, ڈراما, کارسازی, کام, کرتب, کرشمہ, کیل

کھیل کے جملے اور مرکبات

کھیل کے دن, کھیل گھر, کھیل پتلی, کھیل تماشا, کھیل کود, کھیل اوپاڑ

کھیل english meaning

sportplayfunfrolicpastimeamusement; a game; amorous sport; sexual intercourse; a wonder (of nature)a sight or spectacle.

شاعری

  • دل کا اُجڑنا سہل سہی‘ بسنا سہل نہیں ظالم
    بستی بسنا کھیل نہیں‘ بستے بستے بستی ہے
  • ہَوا بُرد

    مِرے ہم سَفر
    مِرے جسم و جاں کے ہر ایک رشتے سے معتبر‘ مرے ہم سَفر
    تجھے یاد ہیں! تجھے یاد ہیں!
    وہ جو قربتوں کے سُرور میں
    تری آرزو کے حصار میں
    مِری خواہشوں کے وفور میں
    کئی ذائقے تھے گُھلے ہُوئے
    درِ گلستاں سے بہار تک
    وہ جو راستے تھے‘ کُھلے ہُوئے!
    سرِ لوحِ جاں‘
    کسی اجنبی سی زبان کے
    وہ جو خُوشنما سے حروف تھے!
    وہ جو سرخوشی کا غبار سا تھا چہار سُو
    جہاں ایک دُوجے کے رُوبرو
    ہمیں اپنی رُوحوں میں پھیلتی کسی نغمگی کی خبر ملی
    کِسی روشنی کی نظر ملی‘
    ہمیں روشنی کی نظر ملی تو جو ریزہ ریزہ سے عکس تھے
    وہ بہم ہُوئے
    وہ بہم ہُوئے تو پتہ چلا
    کہ جو آگ سی ہے شرر فشاں مِری خاک میں
    اُسی آگ کا
    کوئی اَن بُجھا سا نشان ہے‘ تری خاک میں!
    اسی خاکداں میں وہ خواب ہے
    جسے شکل دینے کے واسطے
    یہ جو شش جہات کا کھیل ہے یہ رواں ہُوا
    اسی روشنی سے ’’مکاں‘‘ بنا‘ اسی روشنی سے ’’زماں‘‘ ہُوا
    یہ جو ہر گُماں کا یقین ہے!
    وہ جو ہر یقیں کا گمان تھا!
    اسی داستاں کا بیان تھا!
  • مرے ہم سفر‘ تجھے کیا خبر!
    یہ جو وقت ہے کسی دُھوپ چھاؤں کے کھیل سا
    اِسے دیکھتے‘ اِسے جھیلتے
    مِری آنکھ گرد سے اَٹ گئی
    مِرے خواب ریت میں کھوگئے
    مِرے ہاتھ برف سے ہوگئے
    مِرے بے خبر‘ ترے نام پر
    وہ جو پُھول کھلتے تھے ہونٹ پر
    وہ جو دیپ جلتے تھے بام پر‘
    وہ نہیں رہے
    وہ نہیں رہے کہ جو ایک ربط تھا درمیاں وہ بکھر گیا
    وہ ہَوا چلی
    کسی شام ایسی ہَوا چلی
    کہ جو برگ تھے سرِ شاخِ جاں‘ وہ گرادیئے
    وہ جو حرف درج تھے ریت پر‘ وہ اُڑا دیئے
    وہ جو راستوں کا یقین تھے
    وہ جو منزلوں کے امین تھے
    وہ نشانِ پا بھی مِٹا دیئے!
    مرے ہم سفر‘ ہے وہی سفر
    مگر ایک موڑ کے فرق سے
    ترے ہاتھ سے مرے ہاتھ تک
    وہ جو ہاتھ بھر کا تھا فاصلہ
    کئی موسموں میں بدل گیا
    اُسے ناپتے‘ اُسے کاٹتے
    مرا سارا وقت نکل گیا
    تو مِرے سفر کا شریک ہے
    میں ترے سفر کا شریک ہوں
    پہ جو درمیاں سے نکل گیا
    اُسی فاصلے کے شمار میں
    اُسی بے یقیں سے غبار میں
    اُسی رہگزر کے حصار میں
    ترا راستہ کوئی اور ہے
    مرا راستہ کوئی اور ہے
  • فرق

    کہا اُس نے دیکھو‘
    ’’اگر یہ محبت ہے‘ جس کے دو شالے
    میں لپٹے ہوئے ہم کئی منزلوں سے گزر آئے ہیں!
    دھنک موسموں کے حوالے ہمارے بدن پہ لکھے ہیں!
    کئی ذائقے ہیں‘
    جو ہونٹوں سے چل کر لہُو کی روانی میں گُھل مِل گئے ہیں!

    تو پھر اُس تعلق کو کیا نام دیں گے؟
    جو جسموں کی تیز اور اندھی صدا پر رگوں میں مچلتا ہے
    پَوروں میں جلتا ہے
    اور ایک آتش فشاں کی طرح
    اپنی حِدّت میں سب کچھ بہاتا ہُوا… سنسناتا ہُوا
    راستوں میں فقط کُچھ نشاں چھوڑ جاتا ہے
    (جن کو کوئی یاد رکھتا نہیں)
    تو کیا یہ سبھی کچھ‘
    اُنہی چند آتش مزاج اور بے نام لمحوں کا اک کھیل ہے؟
    جو اَزل سے مری اور تری خواہشوں کا
    انوکھا سا بندھن ہے… ایک ایسا بندھن
    کہ جس میں نہ رسّی نہ زنجیر کوئی‘
    مگر اِک گِرہ ہے‘
    فقط اِک گِرہ ہے کہ لگتی ہے اور پھر
    گِرہ در گِرہ یہ لہو کے خَلیّوں کو یُوں باندھتی ہے
    کہ اَرض و سَما میں کشش کے تعلق کے جتنے مظاہر
    نہاں اور عیاں ہیں‘
    غلاموں کی صورت قطاروں میں آتے ہیں
    نظریں جُھکائے ہوئے بیٹھ جاتے ہیں
    اور اپنے رستوں پہ جاتے نہیں
    بات کرتے نہیں‘
    سر اُٹھاتے نہیں…‘‘

    کہا میں نے‘ جاناں!
    ’’یہ سب کُچھ بجا ہے
    ہمارے تعلق کے ہر راستے میں
    بدن سنگِ منزل کی صورت کھڑا ہے!
    ہوس اور محبت کا لہجہ ہے یکساں
    کہ دونوں طرف سے بدن بولتا ہے!
    بظاہر زمان و مکاں کے سفر میں
    بدن ابتدا ہے‘ بدن انتہا ہے
    مگر اس کے ہوتے… سبھی کُچھ کے ہوتے
    کہیں بیچ میں وہ جو اِک فاصلہ ہے!
    وہ کیا ہے!
    مری جان‘ دیکھو
    یہ موہوم سا فاصلہ ہی حقیقت میں
    ساری کہانی کا اصلی سِرا ہے
    (بدن تو فقط لوح کا حاشیہ ہے)
    بدن کی حقیقت‘ محبت کے قصے کا صرف ایک حصہ ہے
    اور اُس سے آگے
    محبت میں جو کچھ ہے اُس کو سمجھنا
    بدن کے تصّور سے ہی ماورا ہے
    یہ اِک کیفیت ہے
    جسے نام دینا تو ممکن نہیں ہے‘ سمجھنے کی خاطر بس اتنا سمجھ لو
    زمیں زادگاں کے مقدر کا جب فیصلہ ہوگیا تھا
    تو اپنے تحفظ‘ تشخص کی خاطر
    ہر اک ذات کو ایک تالہ ملا تھا
    وہ مخصوص تالہ‘ جو اک خاص نمبر پہ کُھلتا ہے لیکن
    کسی اور نمبر سے ملتا نہیں
    تجھے اور مجھے بھی یہ تالے ملے تھے
    مگر فرق اتنا ہے دونوں کے کُھلنے کے نمبر وہی ہیں
    اور ان نمبروں پہ ہمارے سوا
    تیسرا کوئی بھی قفل کُھلتا نہیں
    تری اور مری بات کے درمیاں
    بس یہی فرق ہے!
    ہوس اور محبت میں اے جانِ جاں
    بس یہی فرق ہے!!
  • شاید وفا کے کھیل سے اُکتا گیا تھا وہ
    منزل کے پاس آکے جو رستہ بدل گیا
  • کیا ہے! جو رکھ دیں آخریں داؤ میں نقدِ جاں!
    ویسے بھی ہم نے کھیل یہ ہارا ہُوا تو ہے
  • سب دیکھتے تھے اور کوئی سوچتا نہ تھا
    جیسے یہ کوئی کھیل تھا، اک واقعہ نہ تھا!
  • چند جستوں کا یہ سارا کھیل ہے
    رہ گئے، جو ابتداء میں، رہ گئے
  • سودا ہے عمر بھر کا، کوئی کھیل تو نہیں
    اے چشمِ یار، مجھ کو ذرا سوچنے تو دے!
  • یہ جو زندگانی کا کھیل ہے، غم و انبساط کا میل ہے
    اُسے قدر کیا ہو بہار کی! کبھی دیکھی جس نے خزاں نہیں

محاورات

  • آؤ دوگانہ چٹکی (پڑوسن چپٹی) کھیلیں خالی سے بیگار بھلی
  • آسیب سر پر کھیلنا
  • آسیب کا سر پر کھیلنا
  • آگ پانی کا کھیل
  • آلا کرنا یا کھیلنا
  • آنتا تیتا دانتا نون پیٹ بھرن کو تین ہی کون آنکھیں پانی کانے تیل۔ کہے گھاگ بیداﺋﮯ کھیل
  • آنچ کا کھیل ہے
  • آنکھ مچولی کھیلنا
  • ابی دبی کھیلنا
  • اپس جیو پہ ہوڑ کھیلنا

Related Words of "کھیل":