گئی گزری
{ گَئی + گُز + ری }
تفصیلات
iسنسکرت سے اردو میں ماخوذ مصدر |جانا| سے بے قاعدہ فعل ماضی مطلق واحد غائب |گیا| کی تانیث |گئی| کے ساتھ فارسی مصدر |گزشتن| سے اردو قاعدے کے تحت مصدر |گزرنا| سے فعل ماضی مطلق واحد غائب گزرا کی تانیث گزری ملانے سے |گئی گزری| مرکب وصفی بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور ١٨٧٩ء کو "مسدس حالی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔
[""]
اسم
صفت ذاتی
گئی گزری کے معنی
"بدنصیب قوم کو بتایا ہے کہ اس کی اپنی تہذیب بھی کچھ ایسی گئی گزری اور اس کی اپنی تہذیب بھی کچھ گئی گزری اور اس کی تمام رسوم ایسی لغو، بے معنی اور فضول نہ تھیں۔" (١٩٤٥ء، علامہ راشد الخیری، ١٤٣)
"پھریلی بھی ایسی گئی گزری جس کے پنجے آگ میں سے وہ شاہ بلوط کے پھل بھی نہ نکال سکے جس پر شمال کی مقدس مہاتما مورت یعنی شہنشاہ روس للچا رہے تھے۔" (١٨٩٣ء، بست سالہ عہد حکومت، ٢١)
"اب میں ایسی گئی گزری ہوئی کہ ایسا ذلیل و بیہودہ غلام میری تعریف میں شعر پڑھتا ہے۔" (١٩٢٦ء، شرر، مضامین شرر، ٣٩:٣)
گل ہائے داغِ عشق میں وہ تازگی نہیں اپنی بہار اب گئی گزری بہار ہے (١٩٣١ء، اعجاز نوح، ٣٠٠)
"چکبست سے کچھ دن بر بنائے نازِ معشوقانہ روٹھی رہی کہ لو صاحبِ منت خوشامد ایک طرف مجھے سے امید رکھتے ہیں کہ اِن کی تلاش میں ماری ماری پھروں بندی ایسی کہاں کی گئی گزری ہے۔" (١٩٥٠ء، چھان بین، ١٥)