گویا کے معنی
گویا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ گَوَیْ + یا }{ گو (و مجہول) + یا }
تفصیلات
iاصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٥٩ء کو "راگ مالا" میں مستعمل ملتا ہے۔, iاصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور صفت، متعلق فعل اور گا ہے بطور حرف استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٤٩ء کو "خاور نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["بولنے والا","تسلیم کرو","حیوان ناطق","خوش گفتار","رامش گر","عین مین","فرض کرو","گفتگو کنندہ","نغمہ پرداز","ہو بہو"]
گفتن گویا
اسم
صفت ذاتی ( مذکر - واحد ), حرف تشبیہ ( واحد ), صفت ذاتی ( واحد ), متعلق فعل
اقسام اسم
- واحد غیر ندائی : گَوَیّے[گَوَیْ + یے]
- جمع : گَوَیّے[گَوَیْ + یے]
- جمع غیر ندائی : گَوَیّوں[گَوَیْ + یوں (و مجہول)]
گویا کے معنی
"یہ لذت . اسی طرح کی لذت ہے جو کسی گویے کو پراگندہ آوازوں کے ایک نغمے یا راگ میں منتظم کر دینے سے حاصل ہوتی ہے۔" (١٩٣٣ء، سیرۃ النبیۖ، ١٥٨:٣)
["\"کبھی کبھی وہ شعر اس طور پر بھی کہتے ہیں گویا ایک ہی جیسے لفظوں سے کوئی دیوار چن رہے ہیں۔\" (١٩٩٢ء، افکار، کراچی، دسمبر، ٣٢١)"]
["\"آزادی نے گونگوں تک کو گویا کر دیا ہے۔\" (١٨٩٩ء، حیات جاوید، ٣:١)","\"یہ شخص نہایت گویا اور وجیہہ اور شعبدہ باز تھا۔\" (١٨٩٠ء، تذکرۃ الکرام، ٥٣٠)","\"میرے سوال کے جواب میں یوں گویا ہوئے۔\" (١٩٨٣ء، دیگراحوال یہ کہ، ١٢١)"]
["\"اور دنیا کی نظروں میں گویا روپوش ہو گئے۔\" (١٩٣٣ء، یہ قدرت، ١١)","\"نینا کی صورت بھائی سے اتنی مشابہ تھی گویا جیسے وہ اس کی سگی بہن ہو۔\" (١٩٣٢ء، میدان عمل، ١١)"]
گویا کے مترادف
سازندہ, قوال, قائل, متکلم, زمزمہ پرداز
آسا, انسان, بساں, جیسے, خنیاگر, راگی, ظاہراً, غالباً, غط, گاٹک, مانند, مثالاً, مثل, مثلاً, مطرب, مغنّی, ہوبہو, یعنی
گویا english meaning
Conversable; eloquent; a gossip; a (woman|s) female friend.(one) able to talkas ifspeaking person
شاعری
- گویا محاسبہ مجھے دینا تھا عشق کا
اس طور دل سی چیز کو میں نے لگا دیا - غافل ہیں ایسے سوتے ہیں گویا جہاں کے لوگ
حالانکہ رفتنی ہیں سب اس کارواں کے لوگ - شام ہی سے بُجھا سا رہتا ہے
دل ہے گویا چراغ مفلس کا - خامشی گویا ہُوئی، منظر زبانیں بن گئے
کب مجُھے کُچھ ہوش تھا کب اُس نے کوئی بات کی! - دل مرا سوز نہاں سے بے محایا جل گیا
آتش خاموش کے مانند گویا جل گیا - قبر میں جو مشعل سوز غم جاناناں ہے
گنبد مرقد مرا گویا کہ آتش خانہ ہے - مجھے بھاری گلے والا گویا خوش نہیں آتا
کھٹکتا ہے کلیجے میں وہی باریک سر والا - کیا عیسیٰ نے مجکو نوش جاں کرخون دل اپنا
مریض عشق کی بھتر غذا یہ آش ہے گویا - مجھ مییں اس میں ربط ہے گویا برنگ بودگل
وہ رہنا آغوش میں لیکن گریزاں ہی رہا - دوزخ نصیب مردم آبی کو ہو ابھی
ہر وقت اپنا پاؤں ہے گویا رکاب میں
محاورات
- بگڑا شاعر مرثیہ گو۔ بگڑا گویا مرثیہ خواں
- گویا ان تلوں میں تیل نہیں
- نام نہ گویا