آشیاں کے معنی
آشیاں کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ آش + یاں }
تفصیلات
iفارسی زبان سے ماخوذ ہے اور اپنی اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی اردو میں مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٩٠٩ء میں "ضمیمہ قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["گھر","پرندوں کا گھر","چڑیوں کا گھونسلا","چھوٹا سا گھر","رہائش گاہ","رہنے کی جگہ"]
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- واحد غیر ندائی : آشْیانے[آش + یا + نے]
- جمع : آشْیانے[آش + یا + نے]
- جمع غیر ندائی : آشْیانوں[آش + یا + نوں (واؤ مجہول)]
آشیاں کے معنی
١ - گھونسلا، پرند کا گھر جسے وہ تنکوں وغیرہ سے بناتا ہے۔
"دیکھا تو ایک پرانا دھرانا ویرانہ ہے چغد و بوم کا آشیانہ ہے۔" (١٩٠١ء، الف لیلہ، سرشار، ٥٩)
٢ - رہنے کا گھر، مسکن، اڈہ، قیام کی جگہ۔
"محکمہ جنگ بدمعاشوں کے لیے ایک عمدہ آشیانہ تھا۔" (١٩١٣ء، فغان ایران، ١٠٦)
شاعری
- اسیری نے چمن سے میرے دل گرمی کو دھو ڈالا
وگرنہ برق جاکر آشیاں میرا جلا آوے - خوگر ہوئے ہیں عشق کی گرمی سے خار و خس
بجلی پڑی رہے ہے مرے آشیاں کے بیچ - اثباتِ بے ثباتی ہوا ہوتا آگے تو
کیوں اس چمن میں ڈالتے ہم آشیاں کی طرح - سیہ کردوں گا گلشن دود دل سے باغباں میں بھی
جلا آتش میں میرے آشیاں کے خار و خس بہتر - قفس کی تیلیوں میں جانے کیا ترکیب رکھی ہے
کہ ہر بجلی قریبِ آشیاں معلوم ہوتی ہے - بنائیں کیا سمجھ کر شاخِ گل پر آشیاں اپنا
چمن میں آہ کیا رہنا‘ جو ہو بے آبرو رہنا - بجلی کو چار تنکوں سے سوجھی ہے دل لگی
چمکی تو آشیاں پہ‘ گری آشیاں سے دور - ثبوت برق کی غارت گری کا کس سے ملے
کہ آشیاں تھا جہاں‘ اب وہاں دھواں بھی نہیں - جب کوندتی ہے بجلی‘ تب جانبِ گلستاں
رکھتی ہے چھیڑ میرے خاشاک آشیاں سے - چلے تھے جانبِ منزل تو کس نے سوچا تھا
وہاں ملیں گے نہ تنکے بھی آشیاں کے لئے
محاورات
- آشیاں بنانا(یا باندھنا)
- آشیاں یا آشیانہ بنانا باندھنا۔ چھانا۔ کرنا یا لگانا
- آشیاں یا آشیانہ ہونا