آماج کے معنی

آماج کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ آ + ماج }

تفصیلات

iفارسی زبان سے ماخوذ ہے اور اردو میں اصلی حالت اور معنی میں ہی مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦١١ء میں قلی قطب شاہ کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔, m["چاند ماری","فرسنگ کا چوتھا حصّہ","مٹی کا ڈھیر","میدان جنگ( آماج گاہ)","وہ تودہ خاک جِس پر تیراندازی کا نشانہ قاﺋم کرتے ہیں"]

اسم

اسم نکرہ ( مذکر )

اقسام اسم

  • جمع غیر ندائی : آماجوں[آ + ما + جوں (واؤ مجہول)]

آماج کے معنی

١ - نشانہ، ہدف، جس چیز یا جس مقام کو تاک کر تیر یا گولی لگائیں۔

 ہر برق جو کوندی ہے گری ہے وہ تمہیں پر ہر فتنہ جب اٹھتا ہے تمہیں بنتے ہو آماج (١٩٣١ء، بہارستان، ظفر علی خان، ١٦٣)

٢ - زمین ناپنے کا ایک آلہ جس کا طول پانسو گز ہوتا ہے۔

"ہر آماج موافق دس زہموں کے ہے اور ہر زہمہ پچاس گز کا ہے۔" (١٨٧٣ء، عقل و شعور، ١٣٢)

آماج کے مترادف

ہدف, مرکز

نشانہ, نمخت, ہدف, ہل

آماج english meaning

A mound or heap of earth on which a mark I fixed to shoot arrows attargetbuttconstantfirmimmutablesheltersteadyunshaken

شاعری

  • پرت تج کوں کرےھ گر تیر باراں
    توں اپنا سینہ کر اس تائیں آماج
  • کسی پر چلیں تیر آماج ہیں یہ
    لٹے کوئی رہ گیر تاراج ہیں یہ
  • ہر برق جو کوندی ہے گری ہے وہ تمہیں پر
    ہر فتنہ جب اٹھتا ہے تمہیں بنتے ہو آماج
  • آماج گاہ تیر حوادث ہوں رات دن
    پتلابنا ہوا ہوں غم روز گار کا
  • پرت تج کوں کرے گر تیر باراں
    توں اپنا سینہ کر اس تائیں آماج
  • چلا کر تیر مژ گاں شاہ خوباں
    کیا آماج ہے مدفن کسو کا

Related Words of "آماج":