آن[1]

{ آن }

تفصیلات

iفارسی زبان میں |آن| اور سنسکرت میں |اَیَن| استعمال ہوتا ہے اور اردو میں ١٥٦٤ء میں اردو میں حسن شوقی نے استعمال کیا اور قدیم |آں| استعمال ہوتا تھا۔

[""]

اسم

اسم مجرد ( مؤنث - واحد ), فعل لازم

اقسام اسم

  • ["جمع : آنین[آنیں (ی مجہول)]","جمع غیر ندائی : آنوں[آ + نوں (و مجہول)]"]

آن[1] کے معنی

["١ - ادا، چھب، کسی عضو کی معشوقانہ دلکش حرکت، عشوہ، غمزہ۔","٢ - دلکشی، جاذبیت۔","٣ - طریقہ، انداز، طرز، ڈھب، طور۔","٤ - طبیعت، مزاج، عادت، خصلت","٥ - بناوٹ، تصنع۔","٦ - بانکپن، تمکنت، وقار۔","٧ - سج، دھج","٨ - قسم،عہد۔","٩ - رواج، رسم، ریت۔","١٠ - وعدہ۔","١١ - خودداری۔","١٢ - پاس وضع، وضعداری","١٣ - شرم و حیا۔(پلیٹس)","١٤ - روک ٹوک، ممانعت۔","١٥ - مرتبہ، شان و شوکت۔","١٦ - ارادہ، مرضی، خواہش۔","١٧ - ضد، ہٹ(نوراللغات، 141:1)"]

[" دو دو چھریاں لیے پھرتا ہے حسینوں کا شباب شان ہوتی ہے جدا، آن جدا ہوتی ہے (١٩٢٨ء، سرتاج سخن، جلیل، ٢٠)"," سانولا رنگ ہو کہ گورا ہو آن ہو جس میں خوبرو ہے وہی (١٨٣٦ء، ریاض الجر، ٢٤٩)","\"برگزیدگانِ خدا کی ہرآن سے شانِ الٰہی جلوہ گر ہوتی ہے\" (١٩٠٧ء، تذکرۃ المصطفٰی، ١٥)","\"اچھا میں تم کو تمھاری ماں سے ملتی جلتی ایک شکل دکھاؤں، وہ تمھاری بہن صفیہ ہے جس نے اپنی ماں کی کوئ آن نہیں چھوڑی\"۔ (١٩٢٠ء، لخت جگر، ٤٢:١)"," ایک فقط ہے سادگی تس پہ بلائے جاں ہے تو عشق کرشمہ کچھ نہیں آن نہیں، ادا نہیں (١٨١٠ء، کلیات، میر، ٢٣٢)","\"اس وقت بھی ان میں ایک آن پائی جاتی تھی\"۔ (١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ١٨٥)"," صورت وہی، حشم بھی وہی، شان بھی وہی جامہ وہی، قبا بھی وہی، آن بھی وہی (١٩٤٩ء، مراثی نسیم، ١٥٧:٣)"," کیا تمھیں برات میں جانے کی آن ہے\"۔ (١٩٢٤ء، نوراللغات، ١٤٠:١)","\"ہمارے ہاں تو بڑوں سے آن چلی آتی ہے کہ سیدوں کے سوا کسی کو بیٹی نہ دیں اور نہ کسی کی بیٹی لیں\"۔ (١٨٩٥ء، حیات صالحہ، ٦١)"," قول و عمل ہوں ایک یہ مردوں کی شان ہے حق پر نثار ہوں گے ہماری یہ آن ہے (١٩١٢ء، مرثیہ، شمیم، ١١)"," مفلس کی کچھ نظر نہیں رہتی ہے آن پر دیتا ہے اپنی جان وہ ایک ایک نان پر (١٨٣٠ء، کلیات، نظیر، ٣١٦:١)"," جس نے صورت تک عدالت کی کبھی دیکھی نہ تھی ہاتھ سے جس نے بڑوں آن اب تک دی نہ تھی (١٨٩٢ء، دیوان، حالی، ١٨٠)","\"ان کے یہاں سبز چوڑیوں کی آن ہے\" (١٨٩١ء، امیر اللغات، ١٧٨:١)"," تمھاری عزتیں تھیں، اوج تھا، رتبہ تھا، شانیں تھیں تمھاری بات تھی، احکام تھے، کہنا تھا آنیں تھیں١٩٢١ء، کلیات، اکبر، ٣١٦:١"," ہم گئے دنیا سے وہ آتے رہے اس میں کیا ہے اپنی اپنی آن ہے"]

["١ - آنا مصدر سے حاصل مصدر، |آ| کی جگہ مستعمل تھا، فعل معطوفہ اور افعال مرکبہ میں مستعمل (آن پہنچنا، آن گرنا) وغیرہ۔"]

["\"دل رہا شہرِ دیدار کا نگہبان، اغیار کوں واں نہیں دیتا آن\"۔ (١٦٣٥ء، سب رس، ملا وجہی، ٦٧)"]

مترادف

آرزو, خاطر, رسم, شان, ضد, عادت, عزت, حیا