اسیر کے معنی
اسیر کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ اَسِیْر }
تفصیلات
iعربی زبان سے اسم مشتق ہے ثلاثی مجرد کے باب سے اسم فاعل ہے اردو میں ١٥٠٣ء کو |نوسرہار" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["باندھنا","(مجازاً) مبتلا","ایک گھاس جس کی جڑ کی ٹٹیاں بنائی جاتی ہیں","پابند (رہنا۔ کرنا۔ ہونا کے ساتھ)","چنتا (کرنا۔ ہونا کے ساتھ)","حسرت سے یاد رکھنا","زیرِ دام"]
اسر اَسِیْر
اسم
صفت ذاتی
اقسام اسم
- تفضیلی حالت : اَسِیروں[اَسی + روں (و مجہول)]
اسیر کے معنی
|زلف خواجہ کا اسیر، دام اقبال میں کیونکر آ سکتا ہے۔" (١٩١٣ء، مکاتیب اقبال، ٣٢٧:٢)
دل تھا کبھی اسیر فریب وفائے یار ان کون ہے نگاہ کرم کا امیدوار (١٩١٢ء، مطلع انوار، ٢١)
اسیر english meaning
boundtiedmadecaptivea fowlera game-keepera hunterEnslaveleastmuttonprisonerquadrupedsthe fragrant roots of a grass used for making tattis
شاعری
- ہم ہوئے‘ تم ہوئے کہ میر ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے - ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے - چھوٹتا کب ہے اسیر خوش زباں
جیتے جی اپنی رہائی ہوچکی! - رکھیں اُمید رہائی اسیر کا کل و زلف
مری تو باتیں ہیں زنجیر صرف الفت کی - ہم تو اسیر کنجِ قفس ہو کے مر چلے
اے اشتیاقِ سیر چمن تیری کیا خبر - بے بال و پر اسیر ہوں کنج قفس میں میر
جاتی نہیں ہے سر سے چمن کی ہوا ہنوز - ہم ہوئے‘ تم ہوئے‘ کہ میر ہوئے
اُس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے - اسیر حلقۂ گرداب کوشش کی ضرورت ہے
بہ آسانی کسی کو دامنِ ساحل نہیں ملتا - وفا کی سِسکیاں‘ اسیر ہوس کے قہقہے‘ توبہ
محبت کی فضا تھرا گئی‘ کیا تم نہ آؤگے - ہشیار اسیر آنکھ ہے تجکو جو سخن میں
غافل ہے وہ فن سے جو کہے خواب کا پھاہا
محاورات
- زبان میں بواسیر ہے