افسوس کے معنی
افسوس کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ اَف + سوس (و مجہول) }
تفصیلات
iفارسی زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم اور متعلق فعل استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["(قدیم) دریغ","(ملامت کے موقع پر عموماً حسرت یا ہمدردی کے ساتھ) وائے ہو، اس بات یا حالت پر نفرین ہے","(ناکامی یا محرومی وغیرہ پر) تاسف","تکلف (عموماً ٫بے، نافیہ کے ساتھ)","حسرت یا پچتاوا","ندامت اور شرمساری کے موقع پر"]
اسم
اسم کیفیت ( مذکر - واحد ), متعلق فعل
افسوس کے معنی
[" اپنی محکومیت پر، افسوس بے جا ہے جب، تو کیوں? کر افسوس (١٩٢٨ء، تنظیم الحیات، ٢٠٣)","\"چند روزہ مہمان پر اتنا بھروسا نہ کر کہ کبھی افسوس کرنا پڑے۔\" (١٩١٠ء، گرداب حیات، ٤٥)","\"خوان نعمات بے افسوس کا اس کے ہر جگہ پر تیار ہے۔\" (١٨٤٤ء، گلستان (ترجمہ)، حسن علی خان، ١)"]
[" اک دوپہر میں سارے عزیزوں سے چھٹ گئے افسوس اس دریار میں ہم آکے لٹ گئے (١٩١٢ء، شمیم، مرثیہ (قلمی نسخہ)، ١٩)"," بے علم بھی ہم لوگ ہیں غفلت بھی ہے طاری افسوس کہ اندھے بھی ہیں اور سو بھی رہے ہیں (١٩٢١ء، اکبر الہ آبادی، کلیات، ٣٥٣:١)"," کیوں ترا مبتلا کیا افسوس کیا کہیں دل نے کیا کیا افسوس (١٨٢٤ء، مصحفی: انتخاب رام پور، ١٠٢)"]
افسوس کے مترادف
آہ, حسرت, حیف, رنج, صدمہ, پچھتاوا, غم
آہ, اندوہ, بیہات, پچتاوا, پشیمانی, تاسف, حیف, دردا, دریغ, رنج, صدمہ, غصہ, غم, قلق, مسرت, ملال, وائے
افسوس english meaning
distresspainremorseremorse ; repentancesorrowtroubletrouble ; afflictionwoe
شاعری
- دل و دماغ ہے اب کس کو زندگانی کا
جو کوئی دم ہے تو افسوس ہے جوانی کا - اب گئے اُس کے جُز افسوس نہیں کچھ حاصل
حیف صد حیف کہ کچھ قدر نہ جانی اس کی - افسوس وے شہید کہ جو قتل گاہ میں
لگتے ہی اُس کے ہاتھ کی تلوار مرگئے - ایک عجیب خیال
کسی پرواز کے دوران اگر
اِک نظر ڈالیں جو
کھڑکی سے اُدھر
دُور‘ تاحّدِ نگہ
ایک بے کیف سی یکسانی میں ڈوبے منظر
محوِ افسوس نظر آتے ہیں
کسی انجان سے نشے میں بھٹکتے بادل
اور پھر اُن کے تلے
بحر و بر‘ کوہ و بیابان و دَمن
جیسے مدہوش نظر آتے ہیں
شہر خاموش نظر آتے ہیں
شہر خاموش نطر آتے ہیں لیکن ان میں
سینکڑوں سڑکیں ہزاروں ہی گلی کُوچے ہیں
اور مکاں… ایک دُوجے سے جُڑے
ایسے محتاط کھڑے ہیں جیسے
ہاتھ چھُوٹا تو ابھی‘
گرکے ٹوٹیں گے‘ بکھر جائیں گے
اِس قدر دُور سے کُچھ کہنا ذرا مشکل ہے
اِن مکانوں میں‘ گلی کُوچوں‘ گُزر گاہوں میں
یہ جو کُچھ کیڑے مکوڑے سے نظر آتے ہیں
کہیں اِنساں تو نہیں!
وہی انساں… جو تکبّر کے صنم خانے میں
ناخُدا اور خُدا ‘ آپ ہی بن جاتا ہے
پاؤں اِس طرح سرفرشِ زمیں رکھتا ہے
وُہی خالق ہے ہر اک شے کا‘ وُہی داتا ہے
اِس سے اب کون کہے!
اے سرِخاکِ فنا رینگنے والے کیڑے!
یہ جو مَستی ہے تجھے ہستی کی
اپنی دہشت سے بھری بستی کی
اس بلندی سے کبھی آن کے دیکھے تو کھُلے
کیسی حالت ہے تری پستی کی!
اور پھر اُس کی طرف دیکھ کہ جو
ہے زمانوں کا‘ جہانوں کا خُدا
خالقِ اَرض و سما‘ حّئی و صمد
جس کے دروازے پہ رہتے ہیں کھڑے
مثلِ دربان‘ اَزل اور اَبد
جس کی رفعت کا ٹھکانہ ہے نہ حدّ
اور پھر سوچ اگر
وہ کبھی دیکھے تجھے!!! - ایک حالتِ ناطاقتی میں
جرمن شاعر گنٹر گراس کی نظم IN OHNMACHT CEFALLEN کا آزاد ترجمہ
جب بھی ہم ناپام کے بارے میں کچھ خبریں پڑھتے ہیں تو سوچتے ہیں
وہ کیسا ہوگا!
ہم کو اس کی بابت کچھ معلوم نہیں
ہم سوچتے ہیں اور پڑھتے ہیں
ہم پڑھتے ہیں اور سوچتے ہیں
ناپام کی صورت کیسی ہوگی!
پھر ہم ان مکروہ بموں کی باتوں میں بھرپور مذمّت کرتے ہیں
صبح سَمے جب ناشتہ میزوں پر لگتا ہے‘
ُگُم سُم بیٹھے تازہ اخباروں میں ہم سب وہ تصویریں دیکھتے ہیں
جن میں اس ناپام کی لائی ہُوئی بربادی اپنی عکس نمائی کرتی ہے
اور اِک دُوجے کو دِکھا دِکھا کے کہتے ہیں
’’دیکھو یہ ناپام ہے… دیکھو ظالم اس سے
کیسی کیسی غضب قیامت ڈھاتے ہیں!‘‘
کچھ ہی دنوں میں متحرک اور مہنگی فلمیں سکرینوں پر آجاتی ہیں
جن سے اُس بیداد کا منظرص کالا اور بھیانک منظر
اور بھی روشن ہوجاتا ہے
ہم گہرے افسوس میں اپنے دانتوں سے ناخن کاٹتے ہیں
اور ناپام کی لائی ہوئی آفت کے ردّ میں لفظوں کے تلوے چاٹتے ہیں
لیکن دُنیا ‘ بربادی کے ہتھکنڈوں سے بھری پڑی ہے
ایک بُرائی کے ردّ میں آواز اُٹھائیں
اُس سے بڑی اِک دوسری پیدا ہوجاتی ہے
وہ سارے الفاظ جنہیں ہم
آدم کُش حربوں کے ردّ میں
مضمونوں کی شکل میں لکھ کر‘ ٹکٹ لگا کر‘ اخباروں کو بھیجتے ہیں
ظالم کی پُرزور مذمّت کرتے ہیں
بارش کے وہ کم طاقت اور بے قیمت سے قطرے ہیں
جو دریاؤں سے اُٹھتے ہیں اور اّٹھتے ہی گرجاتے ہیں
نامَردی کچھ یوں ہے جیسے کوئی ربڑ کی دیوارووں میں چھید بنائے
یہ موسیقی‘ نامردی کی یہ موسیقی‘ اتنی بے تاثیر ہے جیسے
گھسے پٹے اِک ساز پہ کوئی بے رنگی کے گیت سنائے
باہر دُنیا … سرکش اور مغرور یہ دُنیا
طاقت کے منہ زور نشے میں اپنے رُوپ دکھاتی جائے!! - ہر آنکھ میں افسوس نے جالے سے تنے ہیں
ماحول کے جادُو سے رہا کوئی نہیں ہے - وہ اپنے گھر چلا گیا افسوس مت کرو
اتنا ہی اس کا ساتھ تھا افسوس مت کرو - انسان اپنے آپ میں مجبور ہے بہت
کوئی نہیں ہے بے وفا افسوس مت کرو - اس بار تم کو آنے میں کچھ دیر ہوگئی
تھک ہار کے وہ سوگیا افسوس مت کرو - دنیا میں اور چاہنے والے بھی ہیں بہت
جوہونا تھا وہ ہوگیا افسوس مت کرو
محاورات
- افسوس دل گرہ میں
- افسوس دل گڑھے میں
- افسوس کا (- کے) ہاتھ / (- ہات) ملنا
- افسوس کرنا
- حیف دانا مرون و افسوس ناداں زیستن
- دست افسوس ملنا
- وائے برمن وائے برحال من افسوس
- کف افسوس (حسرت) ملنا
- کف افسوس ملنا
- کلام اگر کلام کے پہچاننے والے تک نہ پہنچے تو اس کے حال پر افسوس ہے