اندھا
{ اَن + دھا }
تفصیلات
iاصلاً سنسکرت زبان کا لفظ |اندھ| کے ساتھ |ا| بطور لاحقہ صفت لگانے سے بنا۔ اردو میں بطور صفت نیز اسم استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٥٠٠ء کو "معراج العاشقین" میں مستعمل ملتا ہے۔
[""]
اسم
صفت ذاتی ( واحد )
اقسام اسم
- واحد غیر ندائی : اَنْدھے[اَن + دھے]
- جمع : اَنْدھے[اَن + دھے]
- جمع ندائی : اَنْدھو[اَن + دھو (و مجہول)]
- جمع غیر ندائی : اَنْدھوں[اَن + دھوں (و مجہول)]
اندھا کے معنی
نہ دیکھوں میں تمہیں مجھ سے تو ایسا ہو نہیں سکتا جسے آنکھیں خدا نے دی ہیں اندھا ہو نہیں سکتا (١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٤٥)
اچھی صورت کو تیری دیکھ کے دل لوٹ گیا ہائے اندھے کو نہ سوجھا کہ ہے سیرت کیسی (١٨٨٨ء، صنم خانۂ عشق، ٢٦٩)
"یہ لوگ جان بوجھ کر اس سے اندھے بنے ہوئے ہیں۔" (١٩٠٢ء، ترجم قرآن، نذیر، ٦١٣)
"چراغ میں پتلی سوت سی بتی پڑی ہے موا اندھا اندھا جل رہا ہے۔" (١٩٣١ء، رسوا، امراؤ جان ادا، ٦٦)
بے علم کے دل میں نہ صداقت نہ ولا ہو اندھا ہے وہ آئینہ کہ جس پر نہ جلا ہو (١٩٢٣ء، فروغ ہستی، ٤٨)
"جہاں کا خرچ . اٹھانے والے بھی اندھے۔" (١٩١٧ء، طوفان حیات، راشد، ٣٠)
آنکھیں کھلیں جو کور پہ ان کی نگاہ ہو اندھا کنواں بھی ہو تو نہ چشمے کی چاہ ہو (١٩١٢ء، شمیم، ریاض شمیم، ٣٤:٥)
نہ ہو یہ اجالا تو اندھا جہاں ہو نہ حس او تعقل نہ قالب نہ جاں ہو (١٩١٠ء، کلام مہر، ١٤٢)
"غصے میں اس وقت بھی میں اندھا ہو رہا تھا۔" (١٩٣٢ء، میدان عمل، ٣٩٣)
مرکبات
اندھا پن, اندھا کنواں, اندھا دھند, اندھا بگلا, اندھا جہاز, اندھا دھندا, اندھا شکار, اندھا دھندی