بازار

{ با + زار }

تفصیلات

iاصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور اصلی حالت اور معنی میں ہی مستعمل ہے۔ ١٤٢١ء میں خواجہ بندہ نواز کے "شکارنامہ| میں مستعمل ملتا ہے۔

[""]

اسم

اسم نکرہ ( مذکر )

اقسام اسم

  • جمع غیر ندائی : بازاروں[با + زا + روں (و مجہول)]

بازار کے معنی

١ - خرید و فروخت کی جگہ، جہاں مستقل یا عارضی دکانیں ہوں، منڈی۔

"معزز اور نامور غلاموں کا جیسا بازار مصر رہا ہے اور کوئی ملک نہیں رہا۔" (١٩٢٦ء، شرر، مضامین، ١٧٢:٣)

٢ - ساتویں یا آٹھویں دن لگائی جانے والی عارضی منڈی۔

"اسی درخت کے نیچے بازار اور میلے ہوتے ہیں۔" (١٩٢٣ء، ویدک ہند، ٢٢٤)

٣ - وہ منڈی جہاں خصوصیت سے کسی مال کی مانگ اور کھپت ہو، کسی جنس کی مارکیٹ۔

"ہندوستانی کارخانوں کے لیے بازار ہونے ضروری ہیں جہاں ان کے حال کی کھپت ہو۔" (١٩٤٣ء، آجکل، دہلی، یکم جون،٤)

٤ - عام گزرگاہ یا مقام، کھلی جگہ۔

 بے اذن ملک کو بھی یہاں بار نہیں ہے سادات کا گھر ہے کوئی بازار نہیں ہے (١٩١٢ء، شمیم ریاض شمیم، ١٤٩:٦)

٥ - کاروبار، تجارت۔

 یہاں قیمت نہیں دیتا ہے جنس دل کی بھی کوئی بھلا حسرت بتا اس جنس کا بازار کیسا ہے (١٧٨٥ء، حسرت (جعفر علی)، ک، ٢٧٥)

٦ - نرخ، قیمت، بھاؤ۔

 قیمت نیم نگہ دیتے ہیں عاشق دوجہاں کر دیا عشق نے یہ خنکی بازار کو تیز (١٨٤٥ء، کلیات ظفر، ١٠٨:١)

٧ - جہاں منڈی کی طرح مجمع عام ہو، منڈی کے لیے مجمع عام کی جگہ۔

 داد پائے گا بھلا کیا حشر کے بازار سے نام قاتل چھپ سکے گا زخم دامن دار سے (١٩٣٤ء، تجلائے شہاب ثاقب، ١٥٨)

٨ - منڈی کے لوگ۔

"سارے بازار نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔" (١٩٣٦ء، گرداب حیات، ٥)

مترادف

سوق, مارکیٹ

مرکبات

بازار کا نرخ, بازار کی بات, بازار والی, بازار نشیں, بازار مصر, بازار بٹا, بازار بکری, بازار بیٹھک, بازار بھاو, بازار چودھری, بازار خرچ, بازار کا روز, بازار کا چلن, بازار کا گز, بازار کا مول

انگلش

["market","market-place","bazar","mart; business of a market; people assembled at a market; rate","price; demand","sale"]