بازاری
{ با + زا + ری }
تفصیلات
iفارسی زبان سے ماخوذ اسم |بازار| کے ساتھ |ی| بطور لاحقۂ نسبت لگنے سے |بازاری| بنا اردو میں بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ ١٦٣٥ء میں "سب رس"" میں مستعمل ملتا ہے۔
["بازار "," بازاری"]
اسم
صفت نسبتی ( واحد )
اقسام اسم
- جمع غیر ندائی : بازارِیوں[با + زا + رِیوں (و مجہول)]
بازاری کے معنی
"دنیا داروں کی دوستی بازاری فالودے کی مثل ہے۔" (١٩٢٤ء، تذکرۃ الاولیا، ٥٥)
گریہی ہمت و بخشش ہے تو بازاری سے بدلے حرمہرہ کے محتاج نہ لے گا گوہر (١٩١١ء، تسلیم، امیراللہ، کلیات، ٨)
"یہ رقم بعینہ بازاریوں یعنی عام لوگوں پر بھی لازم ہے۔" (١٩٥٨ء، ہندوستان کے عہد وسطیٰ کی ایک جھلک، ٧١)
"مضامین کا مصنف ہونے کے سبب نالائق، نامعقول اور بازاری کا خطاب دیا جاتا تھا۔" (١٩٢١ء، لڑائی کا گھر، ٤)
"خانگیاں و بازاریاں - گھر والیوں کے مقابلے میں عزت و عظمت کچھ بھی نہیں رکھتی تھیں۔" (١٩١٧ء، تاریخ اخلاق یورپ، ١٨٨:١)
"چھچھورے اور بازاری الفاظ و محاورات - سے شیفتہ اور غالب دونوں متنفر تھے۔" (١٩٠١ء، مقالات حالی، ٢٦٧:١)
"ان کی بازاری قیمت فی صدی علی الترتیب حسب ذیل۔" (١٨٩٩ء، بست سالہ عہد حکومت، ٣٩٠)
"مجھ کو افسوس ہوا کہ ایسے معزر پرچے کا سرمایہ معلومات تمام تر بازاری قصے تھے۔" (١٩١٤ء، شبلی، ملاقات، ١٠٦:٥)
مترادف
عامیانہ, سوقیانہ, سوقی
مرکبات
بازاری گپ, بازاری کوٹھا, بازاری عورت, بازاری خبر
انگلش
["of or pertaining to market; market; ordinary","common; low","vulgar"]