باگ[1] کے معنی

باگ[1] کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ باگ }

تفصیلات

iسنسکرت میں اصل لفظ |ولگا| ہے اس سے ماخوذ اردو زبان میں باگ مستعمل ہے۔ بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٥٦٤ء میں |حسن شوقی| کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

["ولگا "," باگ"]

اسم

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )

اقسام اسم

  • جمع : باگیں[با + گیں (یائے مجہول)]
  • جمع غیر ندائی : باگوں[با + گوں (واؤ مجہول)]

باگ[1] کے معنی

١ - وہ تسمہ جس کا ایک سرا گھوڑے یا خچر کے دہانے میں اور دوسرا سوار کے ہاتھ میں رہتا ہے، راس، عنان، لگام۔

"میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کہاں جاؤں اس لیے میں نے باگ خچر کی گردن پر ڈال دی۔" (١٩٤٢ء، الف لیلہ و لیلہ، ٣٢١:٣)

٢ - گھوڑے کی گردن پر بھونری کا نشان جو اس جگہ ہوتا ہے جہاں باگ رہتی ہے۔

"استادوں کا اتفاق کثیر ہے اور بالاتفاق باگ کو معیوب جانتے ہیں۔" (١٨٤١ء، زینت الخیل (حاشیہ)، ٦٠)

٣ - اختیار، سیاہ و سفید کا اختیار، نظم و نسق، اختیار کا سر رشتہ، اختیار کے استعمال پر قابو (اضافت تشبیہی کے طور پر)۔

"بادلوں سے لدی ہوئی طوفانی رات میں ایک بدمست ملکہ کڑک اور چمک کی باگیں ہاتھ میں لیے بجلی کے خزانوں کا معائنہ کر رہی ہے۔" (١٩٢٠ء، روح ادب، جوش، ٥٤)

٤ - سونے یا چاندی کی پتلی زنجیر جس کا ایک سرا بھاری نتھ یا بالیوں میں منسلک ہوتا ہے اور دوسرا سر کے بالوں میں پھنسا دیا جاتا ہے۔

"اوپر بالی میں خوب - جڑاؤ چھپکا اس کے نیچے مچھلی لٹک رہی تھی، اس کے سہارے کے لیے جڑاؤ باگیں لگی تھیں۔" (١٩٦٤ء، نور مشرق، ٥٤)

باگ[1] کے جملے اور مرکبات

باگ ڈور, باگ پکڑائی, باگ دار, باگ کا پودا, باگ گیر