بقا کے معنی
بقا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ بَقا }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور اصلی معنی اور اصلی حالت میں ہی اردو میں مستعمل ہے۔ ١٦١١ء میں |قلی قطب شاہ" کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔, m["باقی رہنا","بَقَی۔ باقی رہنا","حیاتِ جاودانی","زندہ رہنا","نور کا تودہ","ہمیشہ کی زندگی"]
بقی بَقا
اسم
اسم کیفیت ( مذکر، مؤنث - واحد )
بقا کے معنی
حیران ہے کیوں راز بقا مجھ سے پوچھ میں زندہ جاوید ہوں آ مجھ سے پوچھ (١٩٣٣ء، ترانہ، یاس، ١٧)
|کتنے اعمال ایسے ہیں جنھیں بقا ہو۔" (١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ٩٢)
|فنا و محویت سے نکال کر بقا و صحو کی طرف لاتے ہیں۔" (١٨٨٤ء، تذکرۂ غوثیہ، ١٥٧)
بقا english meaning
remaining; duration; eternity; immortalitycontinuancedependent subordinatedurationEternityexistenceimmoralitylifepermanenceprivatesecret
شاعری
- بقا کی فکر کرو خود ہی زندگی کے لئے
زمانہ کچھ نہیں کرتا کبھی کسی کے لئے - فنا کی راہیں بقا کے رستوں کی ہم سفر ہیں
ہتھیلیوں پہ جو سَج کے نکلے ہیں
کیسے سر ہیں!
ہر ایک آندھی کے راستے میں جو معتبر ہیں
یہ کیا شجر ہین!
یہ کیسا نشہ ہے جو لہو میں سرور بن کے اُتر گیا ہے!
تمام آنکھوں کے آنگنوں میں یہ کیسا موسم ٹھہر گیا ہے!
وفا کی راہوں میں جلنے والے چراغ روشن رہیں ہمیشہ
کہ اِن کی لَو سے جمالِ جاں کا ہر ایک منظر سنور گیا ہے
گھروں کے آنگن ہیں قتل گاہیں‘ تمام وادی ہے ایک مقتل
چنار شعلوں میں گھر گئے ہیں سُلگ رہا ہے تمام جنگل
مگر ارادوں کی استقامت میں کوئی لغزش کہیں نہیں ہے
لہو شہیدوں کا کررہا ہے جوان جذبوں کو اور صیقل
جو اپنی حُرمت پہ کٹ مرے ہیں
وہ سَر جہاں میں عظیم تر ہیں
لہُو سے لکھی گئیں جو سطریں
وُہی اَمر تھیں‘ وُہی اَمر ہیں - سدا رکھتا ہوں شوق اس کے سخن کا
ہمیشہ تشنہ آب بقا ہوں - ٹپکایا مرے منہ میں اگر آب بقا بھی
زہر اب وہ ہوکر مری تقدیر سے ٹپکا - تمہی تو کاسہ عمر رواں کو کرتا ہے
نئے سرے سے پھر آب بقا سے بھرتا ہے - تو قطیع مسافت ہر دو رہاں تو مدینہ علم عیاں و نہاں
تو شمول حدوث و فنائے جہاں تو حمول بقا ودوام خدا - قیوم ہو بقا کوں اپس برقراردے
نازل ہرایک شے پہ فنا بے گماں کیا - کیا خوب خلیل او خدا کے
باہر دیئے بھید کوں بقا کے - بہت آب بقا اس میں ملائے
خمیرہ موتیوں کا تب بنائے - ہستی كا نقشہ كھینث كر دیكھا تو یہ آیا نظر
ہے بیچ میں دار فنا‘ دار بقا دونوں طرف
محاورات
- خجلت رد سو الم بہ زمینم در کرد۔ بے زری کردبمن آنچہ بقاروں زرکرد
- راہئی ملک بقا ہونا
- راہگیر علم بقا ہونا
- غرض نقشے است کزمایا دماند۔ کہ ہستی رانمے بینم بقائے