بڑھانا کے معنی
بڑھانا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ بَڑھا + نا }
تفصیلات
iسنسکرت میں اصل لفظ |وردھ| سے ماخوذ اردو مستعمل |بڑھ| کے ساتھ |نا| بطور لاحقۂ مصدر لگنے سے اردو مصدر |بڑھنا| بنا اور پھر اردو قواعد کے تحت علامت مصدر سے پہلے |ا| لگانے سے تعدیہ |بڑھانا| بنا۔ ١٧٨٢ء میں |دیوان محبت" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["آگے لے جانا","آگے کرنا","اضافہ کرنا","امیر کرنا","بہت کرنا","ترقی دینا","دراز کرنا","دولت مند کرنا","زیادہ کرنا","لمبا کرنا"]
وردھنین بَڑْھنا بَڑھانا
اسم
فعل متعدی
بڑھانا کے معنی
|شہر کے تمام حکیموں عالموں فاضلوں کو دکھایا کہ کس طرح اس کھال کو بڑھاویں مگر وہ نہ پانی سے پھولی نہ آگ سے پھیلی۔" (١٩٦٩ء، مقامات ناصری، ١٧٢)
|اس کی پیدا کردہ کرنٹ کو - بڑھانا ممکن نہیں ہوتا۔" (١٩٧٠ء، جدید طبیعات، ٤٣٣)
اوس طفل نے بڑھا کے شفق سے ملا دیا جس دن قریب شام اوڑایا پتنگ سرخ (١٨٤٦ء، آتش، کلیات، ٧٢:١)
ایک انداز رہا ہجر کی شب نالوں کا نہ گھٹائی کبھی میں نے نہ بڑھائی آواز (١٩٣٦ء، شعاع مہر، ٥٢)
|ہم خوش ہوں گے تو یاد دلانا ہم تمہاری تنخواہ بڑھا دیں گے۔" (١٩٢٥ء، لطائف عجیبہ، ١:٣)
|پانچ روپیہ کا ایک نوٹ بڑھا کر کہا بڑے میاں یہ رہا تمہارا کرایہ۔" (١٩٥٤ء، شاید کہ بہار آئی، ٩)
|ایک گروہ کسی شخص کو - بڑھاتا ہے تو دوسرا گروہ اس کے گرانے کی کوشش کرتا ہے۔" (١٩٠٥ء، معرکۂ چکبست و شرر، ٥٨)
|بہت سرگرم ہو کے اپنے پیشہ شاعری کو بڑھاتا چلا جاتا تھا۔" (١٨٣٩ء، تواریخ راسلس شہزادۂ حبش کی،٥٨)
|حضرت انسان کا قاعدہ ہے جب اپنے اوج پر آتے ہیں تو اصلیت کو بھول جاتے ہیں اچھوں کو گھٹاتے ہیں اور بروں کو بڑھاتے ہیں۔" (١٨٨٠ء، نیرنگ خیال، ٨٠)
بڑھا کے لکھیں نہ شاعر حدیث زلف رسا ہوا ہے طول مناسب ہے اختصار کریں (١٨٣٢ء، دیوان رند، ١١٠:١)
سبھی آفتوں سے بچایا ہمیں کھلایا پلایا بڑھایا ہمیں (١٩١١ء، کلیات اسماعیل، ١٠)
|یہ بات وزیروں کبیروں نے اخذ کر لی اور اس معاملے کو خوب رنگ آمیزی سے بڑھایا۔" (١٩٢٤ء، محمد کی سرکار، ٤٥)
بڑھانا ہی گھٹانا کام ہے جب آسمان تیرا بڑھا دے وصل کی شب کو گھٹا دے دن جدائی کا (١٩١٤ء، ریاض شفق، ٢٩)
|بارہ بجے کے قریب گھوم کر آئے کھانا بڑھاتے بچھونا بچھاتے ایک بج گیا۔" (١٩١٦ء، اتالیق بی بی، ١٥)
|گھوڑے سے اتار کر اس کے سارے کپڑے بڑھائے اور گاڑی میں بٹھا دیا۔" (١٩٢٠ء، انتخاب لاجواب، ٢٧ اگست، ١١)
|دوسرے دن شام کو بابو پریم شنکریکہ پر سوار ہوکرآئے میں دوکان بڑھا رہا تھا۔" (١٩٢٢ء، گوشۂ عافیت، ٣٧٨:١)
اب گھٹتے گھٹتے جان میں طاقت نہیں رہی ٹک لگ چلی صبا کہ دیا سا بڑھا دیا (١٨١٠ء، میر، کلیات، ٣٥٨)
لوگو مرے بے شیر کو نوشاہ بناؤ میں دودھ بڑھانے کی خوشی کرتی ہوں آؤ (١٩١٢ء، شمیم، ریاض شمیم، ١٣٧:٧)
مزار وارث دیوا شریف تک نہ گیا ٹھہر کے کیمپ میں منت یونہی بڑھا آیا (١٩٣٧ء، ظریف، دیوانجی، ١٧٥)
بڑھانا english meaning
advanceaugmentchangedelightfulelevateextendincreaselengthenpleasingpraisepromoteput forwardtake offto augmentto elevateto enlargeto exaltto expandto forwardto raise
شاعری
- گھائل جو عشق کے ہیں یہ کہتے ہیں برملا
ہے دل میں خوب شوق بڑھانا پتنگ کا
محاورات
- بات بڑھانا
- پیٹ بڑھانا
- دست ہوس بڑھانا
- دست ہوس بڑھانا
- دستر خوان بڑھانا
- دسترخوان بڑھانا
- دل بڑھانا
- دم بڑھانا
- دودھ بڑھا دینا یا بڑھانا
- دودھ بڑھانا یا چھڑانا