بکھیڑا کے معنی

بکھیڑا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ بَکھے + ڑا }

تفصیلات

iسنسکرت میں اصل لفظ |وکار| سے ماخوذ اردو زبان میں |بکھیڑا| مستعمل ہے۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٦٥٤ء میں |گنج شریف| میں مستعمل ملتا ہے۔, m["انگڑ کھنگر","بوریا بدھنا","چیز بست","دنیاوی تعلقات","دنیاوی جھگڑے یا معاملے","ساز و سامان","شش و پنج","مال و اسباب","مال و متاع","نا اتفاقی"]

وکار بَکھیڑا

اسم

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )

اقسام اسم

  • واحد غیر ندائی : بَکھیڑے[بَکھے + ڑے]
  • جمع : بَکھیڑے[بَکھے + ڑے]
  • جمع غیر ندائی : بَکھیڑوں[بَکھے + ڑوں (و مجہول)]

بکھیڑا کے معنی

١ - شور و شر، دنگا، فتنہ، فساد، ہنگامہ، غل، شور۔

|حیدرآباد میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی فتنہ بپا رہتا ہے اور ایک بکھیڑے سے نجات نہیں ملتی کہ دوسرا کھڑا ہو جاتا ہے۔" (١٩٦١ء، عبدالحق، مقدمات، ٢٩:١)

٢ - قضیہ، لڑائی، جھگڑا، مارکٹائی۔

|انگلستان اس بکھیڑے کی روح رواں اور ان لڑائیوں کا بیدرد ترغیب دینے والا - پیچھے سے حملے کراتا رہا۔" (١٩٠٧ء، نپولین اعظم، ٥:١)

٣ - تکرار، حجت، رد و قدح۔

|وہاں ہزاروں مبصر اور دام لگانے والے ہوتے ہیں نہ قیمت کا جھگڑا نہ چکانے کا بکھیڑا۔" (١٩١٥ء، سجاد حسین، حاجی بغلول، ١١)

٤ - الجھاؤ، جنجال، کھٹراگ، جھمیلے کا معاملہ۔

 خواہشیں جا کے جو کچھ اپنی بیان کیں بولے آپ آئے ہیں کہاں کا یہ بکھیڑا لے کر (١٩٠٣ء، نظم نگاریں، ٥٧)

٥ - کام دھندا، کاروبار، دنیا کے مشاغل (جو غیر معمولی ہوں)۔

|میرے پیچھے تو ایسے بکھیڑے لگ گئے ہیں کہ کسی کام کا ہی نہیں رہا۔" (١٩٤٢ء، مکتوبات عبدالحق، ٢٤٢)

٦ - انتشار، تردد، اندیشہ۔

|لاش اٹھا کر دریا میں ڈال دو قصہ مٹاؤ بکھیڑا ٹال دو۔" (١٨٦٢ء، شبستان سرور، ٧٨:١)

٧ - مال اسباب، انگڑ کھنگڑ۔

 نمک میں آملہ اور ہڑ بہیڑا منگا بازار سے یہ سب بکھیڑا (١٧٩٥ء، فرسنامۂ رنگین، ٢٠)

٨ - دقت، دشواری، پیچ، تکلیف، مشکل، طول امل۔

|حساب روز لکھ لیا کرو اس میں کچھ زیادہ بکھیڑا نہیں۔" (١٨٧٥ء، مجالس النسا، ٧٩:١)

٩ - نا اتفاقی، اختلاف، تضاد۔

 مذہب عشاق ہے بیگانۂ قید رسوم یاں نہیں حسرت بکھیڑا سبحہ و زنار کا (١٩٥٠ء، کلیات حسرت، ٢٧٠)

١٠ - فن، چالاکی۔

 بیکار تو اے دولت حسرت کو نہ دے لالچ ہے تیرے بکھیڑوں سے وہ خاک نشیں واقف (١٩٥٠ء، کلیات حسرت، ٢٠)

١١ - تعلقات دنیاوی (جو موجب تکلیف ہوں)۔

 ہر اک فرد بشر کو سو بکھیڑوں میں پھنسا پایا نشاں ہے ہندسے پر دہر کی کب صفر راحت کا (١٨٧٣ء، دیوان فدا، ٥٩)

١٢ - روک، ہرچ، اٹکاو، سدراہ، مزاحمت، مانع یا موانع۔

|ان میں سے کوئی ایک بھی ایسی نہیں جو ان بکھیڑوں کی وجہ سے اپنے حقوق کے محفوظ رہنے میں اس طرح لاپروائی کرتی ہو۔" (١٨٩٠ء، بست سالہ عہد حکومت، ٤٨٢)

١٣ - وہ بلا یا مصیبت جو کسی طرح نہ ٹلے اور اس میں آئے دن کی پریشانی ہو۔

 عشق بازی کا بکھیڑا مرے سر سارا پڑا دل نے تو چاہا اسے میں مفت میں مارا پڑا (١٩٢٥ء، شوق قدوائی، دیوان، ٥١)

بکھیڑا کے مترادف

آلودگی, پھیر

الجھاؤ, الجھیڑا, بیچ, تکرار, جنجال, جھگڑ, دقت, دنگا, شور, غپاڑا, غل, غوغا, فساد, قضیہ, لڑائی, مارکٹائی, محبت, مشکل, کھڑاگ, ہنگامہ

بکھیڑا english meaning

entanglementcomplicationimbrogliodifficulty; any troublesome or vexatious businessaffair or occurrence; troublecaretrialworryagitationobstacleimpedimentencumbrancecloga broila quarrela tumultbusinessbustleveationswrangling

شاعری

  • دل لیا، تاب و تواں لے چکا، جاں بھی لے لے
    پاک کر ڈال بکھیڑا یہ سبھی جھنجھٹ کا
  • لکھی رندانہ اک دوپٹی بات
    ہے بکھیڑا خرابی اوقات
  • بیگانہ ہے یاں کون اور اپنا ہے یہاں کون
    ہے سب یہ بکھیڑا مرے ہی وہم و گماں کا
  • عشق بازی کا بکھیڑا مرے سر سارا پڑا
    دل نے تو چاہا اسے میں مفت میں مارا پڑا
  • دل لیا ، تاب و توں لے چکا ، جاں بھی لے لے
    پاک کر ڈال بکھیڑا یہ سبھی جھنجھٹ کا
  • لیتے ہو دل تو ابھی دیکھ لو ٹوٹا پھوٹا
    پھر نہ پھیروں گا میں پیچھے نہ بکھیڑا نکلے
  • نہا لیتے گنگا بکھیڑا تھا پاک
    گناہوں کو زم زم سے دھویا کیا
  • الہٰی مرا جلد کر پار بیڑا
    ہے عشق بتاں کا یہ لانجھا بکھیڑا
  • دو کھڑا یہ کہاں کا میں نے چھیڑا
    در گور دفان بہ بکھیڑا
  • باجی دن رات کا پھر وہ ہی بکھیڑا نکلا
    کوئی گل پھولے گا پھر سوت کا چرچا نکلا

محاورات

  • بکھیڑا چکانا
  • بکھیڑا ڈالنا

Related Words of "بکھیڑا":