تسکین کے معنی
تسکین کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ تَس + کِین }تسلی دلاسا
تفصیلات
iعربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب تفعیل سے مصدر ہے اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٨٠٢ء کو "باغ و بہار" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["ٹھیرنا","آرام (دینا۔ کرنا۔ ہونا کے ساتھ)","آرام دینا","آسودگی تشفی","اچل پن","بے حرکتی","بے فکری","صحت مندی","متحرک کو ساکن کرنا"],
سکن تَسْکِین
اسم
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد ), اسم
اقسام اسم
- لڑکی
تسکین کے معنی
یہ آپ آتشیں ہے دریا خون ناحق کا مگر نفس شقی کی پیاس میں تسکین نہیں ہوتی (١٩٢٧ء، آیات وجدانی، ٢٦٧)
"جہاں تسکین سے بحر بدلتی ہو یا کسی اور زحاف کا مل چل سکتا ہو وہاں تسکین نہ چاہیے۔" (١٨٧١ء، قواعد العروض، ٤٩)
"تسکین کے بدلے ایک ایسا نشتر تھا جو فوراً ہی دل کے پار ہو گیا۔" (١٩٠٨ء، صبح زندگی، ٢٢٠)
تسکین کے مترادف
آرام[1], آسودگی, جمعیت, خاطر جمع, تشفی
آرام, اطمینان, افاقہ, تسلّی, تسلی, تشفی, چین, دلاسا, دلجمعی, سَکَنَ, سکون, طمانیت, قرار, ڈھارس
تسکین کے جملے اور مرکبات
تسکین اوسط, تسکین بخش
تسکین english meaning
tranquillitycomfortconsolationeasepacifyingrestsatisfactionsoothingto assentto say yesTaskeen
شاعری
- سایۂِ گل میں بھی تسکین کا پہلو نہ ملا
دن بہاروں کے بہ اندازِ خزاں گزرے ہیں - کسی بہار سے تسکین آرزو نہ ہوئی
جو پھول صبح کھلے‘ شام کو پرائے لگے - تسکین دو کچھ اپنے مریضوں کو نزع میں
اتنی ہی اب تلافی مافات رہ گئی - وہ آکے خواب میں تسکین اضطراب تو دے
ولے مجھے تپش دل مجال خواب تو دے - تسکین روح جس میں وہ بیخودی سی طاری
ایسا بچار جس پر قربان ہوشیاری - ٹک ہو تسکین اس کی خنکی سوں مجھے
ہوش آیا اس گھڑی جی کوں مجھے - وقت شب برت ہراک روزوہ کھولا کرتی
دل کی تسکین کا سامان مہیا کرتی - تسکین نہ خواجگی سے نہ مزدوری سے
عاجز ہے غریب اپنی رنجوری سے - فقط سڑکوں سے تسکین نگاہ چشم شرقی ہے
اندھیرا ہے گھروں میں راستوں میں لیمپ برقی ہے - دل کو تسکین نہیں اشک دما دم سے بھی
اس زمانے میں گئی ہے برکت غم سے بھی
محاورات
- تسکین دینا
- تسکین دینا (فرمانا)
- تسکین گزین ہونا
- تسکین ہونا
- قلب کو (تسکین) تقویت ہونا