تپاک کے معنی
تپاک کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ تَپاک }
تفصیلات
iفارسی زبان سے اسم مشتق ہے۔ فارسی کے مصدر |تپیدن| سے مشتق ہے اردو میں بطور اسم مستعمل ہے اردو میں ١٦٣٥ء کو سب سے پہلے "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["(طنزاً) بے پروائی","آؤ بھگت","اچھا برتاؤ نہ کرنا","بے تابی","بے چینی","بے قراری","خاطر مدارات"]
تَپیدن تَپاک
اسم
اسم مجرد ( مذکر - واحد )
تپاک کے معنی
ہزار کیجئے بناوٹ مگر نہیں بنتی گیا تپاک دلوں میں جہاں ملال آیا (١٩٠٠ء، دیوان حبیب، ١٠)
تپاک ایسا بڑھا پھر اس صنم سے بہت مخطوط و راضی تھے وہ ہم سے (١٨٦١ء، الف لیلہ نو منظوم، شایان، ٣٩:٢)
جھجک تو دور ہوئی ڈریہ ہے مگر اے دوست لگا دے آگ نہ تیرا رکا رکا تپاک (١٩٤٦ء، مشعل، ٢٠١)
"اس قدر تپاک و الطاف بادشاہ سے خلاف عادت تھے۔" (١٨٠١ء، باغ اردو، ١٥٣)
میں ہوں اور افسردگی کی آرزو غالب کہ دل دیکھ کر طرز تپاک اہل دنیا جل گیا (١٨٦٩ء، غالب، دیوان، ٦)
گو کہ باہم و گر اعضا میں منَاسب نہیں خاک ہے مگر چہرے کو بالوں کی سیاہی سے تپاک (١٩٣١ء، محب، مراثی، ٥١)
جس نے کیا تپاک اسی نے کیا ہلاک جو آشنا ہوا وہی نا آشنا ہوا (١٩٠٥ء، داغ (نوراللغات))
ترے جلانے کو اے سنگدل صنم ہم نے اک اور صاعقَہ طور سے تپاک کیا (١٨٤٨ء، ناسخ، (نوراللغات))
تپاک کے جملے اور مرکبات
تپاک قلب
تپاک english meaning
Apparentardourardour ; warmth ; zealconsternationcordialityesteempalpitationregardregard ; esteem [P]warmthzeal
شاعری
- کوئ ہاتھ بھی نہ ملائے گاجو گلے ملوگے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرافاصلے سے ملاکرو - کس کا حسن کہاں کا تعشق کدھر کا دھیان
وہ دن گئے تپاک کے وہ یاد ہو گئی - ملنے میں کتنے گرم ہیں یہ ہائے دیکھنا
کشتہ ہوں میں تو شعلہ اخوں کے تپاک کا - تپاک اس دل کا نیں کرتے مگر ملتے ہیں پاواں سوں
کہ جیوں تل پلنے میں گھانے میں نہیں ہے عار تیلی سوں