تہمت کے معنی
تہمت کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ تُہ + مَت }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے جو اردو میں اپنے اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٦٨٤ء کو "رضوان شاہ و روح افزا" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["پھیلانا","بُرا گمان","بُری رائے","جھوٹا الزام","جھوٹا عیب","جھوٹی بدنامی (تراشنا۔ جوڑنا۔ دھرنا۔ دینا۔ رکھنا۔ لگانا۔ لگنا۔ لے مرنا۔ لینا کے ساتھ)","شک شبہہ","گمان بد","گمانِ بد","مکہ اور اس کے اردگرد کا علاقہ"]
تھم تُہْمَت
اسم
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : تُہْمَتیں[تُہ + مَتیں (ی مجہول)]
- جمع غیر ندائی : تُہْمَتوں[تُہ + مَتوں (و مجہول)]
تہمت کے معنی
"کیا تو نے میرے شہزادے کو قتل نہیں کیا . ہرگز نہیں یہ جھوٹی تہمت ہے۔" (١٩١٤ء، راج دلاری، ١٣٣)
"بے انتظامی کی تہمت، غفلت کی بدنامی، واجد علی شاہ کے سر پر دھر دی تھی۔" (١٨٩٠ء، فسانۂ دلفریب، ٤)
تہمت کے جملے اور مرکبات
تہمت کار, تہمت کا گھر, تہمت نصیب
تہمت english meaning
aspersioncalumnyfalse accusationimputationto disgraceto sing in a low tune or voice
شاعری
- عشق کی تہمت جب نہ ہوئی تھی کاہیکو ایسی شہرت ہے
شہر میں اب رسوا ہیں یعنی بدنامی سے کام کیا - ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا - عالم عالم جوش و جنوں ہے‘ دنیا دنیا تہمت ہے
دریا دریا روتا ہوں‘ صحرا صحرا وحشت ہے - تہمت کینہ فلک پر ہے بھلاوے کے لئے
ورنہ جو دل ہے تعدی سے تری پر خوں ہے - عبث جگ میں شہرت ہمارا ہوا
یو تہمت خلق میں پکارا ہوا - جدا ان تو کیا جو نا ہیں عاشق
اتھی تہمت بچاری پر سو ناحق - مجھ کو اور شوق چمن جوڑ نہ تہمت صیاد
کیا بہانے کی ضرورت ہے کر آزاد مجھے - نہ شریعت نہ طریقت نہ محبت نہ حیا
جس پہ ہو چاہے وہ اس عہد میں تہمت رکھے - تہمت خبط رکھیے اس کے سر
کیجئے سنگ سار اس کو پھر - دل گم گشتہ کی کل ہم نے اپنے قال دیکھی تھی
کریں اب کس پہ تہمت نام اس میں آپ کا نکلا
محاورات
- تہمت سر لگنا
- تہمت لگانا