جام[3]

{ جام }

تفصیلات

iفارسی زبان میں رائج ہے عام طور پر شاعری کے ذریعے سے اردو میں داخل ہوا سب سے پہلے قلی قطب شاہ نے ١٦١١ء میں استعمال کیا۔ عام بول چال میں بہت کم استعمال ہوتا ہے جبکہ شاعری میں بکثرت استعمال ہوتا ہے۔

[""]

اسم

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )

اقسام اسم

  • جمع استثنائی : جامْہا[جام + ہا]

جام[3] کے معنی

١ - گلاس، پانی پینے کا برتن

"نوکروں پر حکم کیا ایک آدمی کی خوراک، کھانا، اور ایک جام پانی دیا کرو"۔ (١٨٢٤ء، سیر عشرت، ٧٢)

٢ - [ مجازا ] شراب کا پیالہ، ساغر، ایاغ

 رکھا ساقی نے شیشہ ساں گریاں کبھی خنداں نہ شکل جام کیا (١٩٠٣ء، نظم نگاریں، ٤٧)

٣ - [ تصوف ] باطن عارف، حقیقت جامعہ۔

"خدا کی ذات میں مل جانے کو جام کہتے ہیں" (١٨٦٨ء، کشافِ اسرار المشائخ، ١٥)

٤ - کشکول۔

 بھیک منگتے تمھارے ابرو پاس ماہِ نو جام ہے گدائی کا

انگلش

["Goblet","bowl","cup","glass","drinking-vessel; a mirror"]