جمانا کے معنی
جمانا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ جَما + نا }
تفصیلات
iسنسکرت سے ماخوذ اردو مصدر لازم |جمنا| سے اردو قواعد کے تحت تعدیہ بنایا گیا ہے یعنی علامت مصدر |نا| سے پہلے |الف| لگانے سے |جمانا| بنا ہے۔ اردو میں بطور مصدر مستعمل ہے۔ ١٨٠٢ء میں "باغ و بہار" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["بھوجن کرانا","پیوستہ کرنا","چسپاں کرنا","کھانا کھلانا"]
جنم+انیین جَمْنا جَمانا
اسم
فعل متعدی
جمانا کے معنی
اے آہ سرد عرصۂ محشر میں میں یخ جما جلتا ہوں میں سنوں کہ جہنم ٹھٹھر گیا (١٨١٠ء، میر، کلیات، ٧٥٠)
"بڑا خوبصورت مطلع کہا ہے ایک ایک لفظ ایسا جمایا ہے کہ اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتا۔" (١٩٣٠ء، مضامین فرحت، ٢٠٤:٢)
"بڑی کڑیوں کی صورت میں تو ان کو اسی طرح جمایا جائے جیسا کہ گول ناٹوں کے متعلق بیان کیا گیا ہے۔" (١٩٠٧ء، مصرف جنگلات، ٢٣٢)
"دوآب گنگ و جمن کے جدید انتظامات جماتے وقت بندھیل کھنڈ کے چندیلوں کو قابو میں لانا ضروری ہوا۔" (١٩٥٣ء، تاریخ مسلمانان پاکستان و بھارت، ١٦٦:١)
اڑ گیا رنگ جو مہندی کا تو کیا غم ان کو پھر جما لیں گے ابھی خون تمنا کر کے (١٩١٥ء، جان سخن، ١٧٠)
"چیزوں کو اس طرح جمانا اور سجانا کہ ہر چیز منہ سے بول اٹھے۔" (١٩٠٦ء، |خاتون| علیگڑھ، جنوری، ٣٦)
"اتنے اطالوی جنٹلمین نے خالی پرتھ پر اپنا اسباب جمانا شروع کیا۔" (١٩٣٠ء، مس عنبرین، ٢)
"کلنگ نظر سب کی بچا کر اس کے قریب آیا کہا بھائی جلد جماؤ ہم بھی ایک دم ماریں۔" (١٨٩١ء، طلسم ہوشربا، ١٧٦:٥)
خلوت کی جمائے انجمن کو پردے میں چھپائے حاومن کو (١٩٠٥ء، محسن، کلیات نعت، ١٢٧)
پونچھیں گے اپنے یار کے دامن سے اشک سرخ عاشق ہیں ہم جمائیں گے بے زور مل کے رنگ (١٨٩٦ء، دیوان شرف، ١٤٢)
دل وحشی کا ٹٹو اڑ گیا ہے دشت وحشت میں جماوے بڑھ کے اک سنٹا الف چاک گریباں کا (١٩٣٧ء، ظریف، دیوان جی، ٢:١)
"سانس میں لفظ اللہ کو جماؤ یعنی جب سانس اندر جائے تو تمام سینے اور شکم کو اس سے بھر دو۔" (١٩١٢ء، سی پارۂ دل، ٩٦:١)
"ابتداً تقلید آبائی نے مجکو اسلام پر جمائے رکھا۔" (١٩٠٧ء، اجتہاد، ١٧٤)
"کھیت کے گھوڑوں کا جنگل تھا فوج تھی کہ ایک بڑا شہر دنگل تھا کوئی جماتا کوئی کوداتا۔" (١٨٦١ء، فسانۂ عبرت، ٧٨)
"حسن آرا دور کا بے گھوڑوں پر سوار . کبھی دوڑتے کبھی جماتے چلے جاتے تھے۔" (١٨٨٠ء، فسانہ آزاد، ١٥٩:١)
"پچیس روپے تصویر اتروائی دیئے کھانا کھلایا تو اب کپڑوں کی جما رہی ہے۔" (١٩٢٩ء، تمغۂ شیطانی، ١٩)
سمجھ رکھ اس کو کہ اختر سے حسن تیرا ہے اگر ستارے نہ ہوں گے جمائے گا پھر کیا (١٨٦١ء، کلیات اختر، ١٥٣)
"دوسرا منتظر ہے کہ کسی طرح اس کے ہاں سے اکھڑے اور میں جماؤں۔" (١٩٠٦ء، مخزن، جون، ٢٣)
"چاروں طرف نوکروں کو جما دیا کہ رستہ روکے کھڑے رہو۔" (١٨٨٣ء، دربار اکبری، ١٦٤)
"بہت سے نئے خوش رنگ بھبھکتے ہوئے پودے اس میں جمائے ہیں۔" (١٩٥٣ء، ممتاز حسین جونپوری (دیوان صفی)، ٢٣)
جمائے مسی برگ سوسن تمام بسا سنبلِ تر سے گلشن تمام (١٨٩٠ء، کٹا۔)
"بیوہ اور یتیموں کی آنکھیں قطرات شبنم کی مثل آنسوؤں کی اوس پلکوں پر جماتی ہیں۔" (١٩١٣ء، انتخاب توحید، ٤٨)
"اور کچھ اسباب عشرت میسر نہیں تو وہی . ٹوپی . فقیر نے عید کی خوشی میں بانکی ترچھی جمائی۔" (١٩٠٨ء، صلائے عام، نومبر، ٥)
"بادشاہ کے دل میں یہ بات جمائی کہ دبیرالدولہ انگریزوں سے سازش رکھتے ہیں۔" (١٨٩٦ء، سیرت فریدیہ، ٢٧)
جمانا کے مترادف
جوڑنا
جوڑنا, چپکانا
جمانا english meaning
To cause a cohesion (between two or more things) to cause to cohere; to cause to adhere or unite; to collectto accumulateamassstore up; to sum up; to cause (water) to congealto congealto form or make (ice); to consolidate; to cause to coagulateto form (coagulated milkor curds); to cause to take rootto plant (a treeshoot); to implant; to cause (one|s words to impress (a person)to bring (one|s words) home (to another); to fixto lay down; to lay off (a measurement) from a scale)coagulatecongealcurdlefix affixfreezehit (blow,etc)impress
شاعری
- قدم جمانا ہے اور سب کے ساتھ چلنا ہے
ہم اپنی راہ کے پتھر ہیں اور دریا بھی
محاورات
- آسن جمانا
- آسن جمانا (متعدی) جمنا
- اپنی پنیری جمانا
- اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنانا / جمانا /چننا / کھڑی کرنا
- اعتراض جڑنا یا جمانا
- ایک ڈگ جمانا
- بات جمانا
- بسترا بچھانا۔ جمانا۔ کرنا یا لگانا
- پاؤں جمانا
- پاؤں جمانا (یا گاڑنا)