حساب
{ حِساب }
تفصیلات
iثلاثی مزید فیہ کے باب سے حاصل مصدر ہے۔ اردو میں ١٥٨٢ء کو "کلمۃ الحقائق" میں مستعمل ملتا ہے۔
["حسب "," حِساب"]
اسم
اسم حاصل مصدر ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع : حِسابات[حِسا + بات]
- جمع غیر ندائی : حِسابوں[حِسا + بوں (و مجہول)]
حساب کے معنی
"میں شام کو تین چار گھنٹے دفتر میں لگاتا . کچے حساب کی فردیں اپنے حساب سے کیش بک اور کھاتے میں منتقل کرتا"۔
"حساب کے پروفیسر چارلس بے بیج نے ١٨٢ء میں ایک ایسی مشین بنائی جو ٦ درجے اعشاریہ تک کام کرتی تھی"۔ (١٩٨٤ء، ماڈل کمپیوٹر بنائیے، ١١)
"منشی . دو روپے فی گائے کے حساب سے گوجروں سے چرائی کی اجرت لے رہا تھا"۔ (١٩٨١ء، سفر در سفر، ٢٨)
"جمع حدیث پر اختلاف ہوا فقہ کی تدوین ایک دوسرے سے مختلف ہو گئ۔ تاریخ کو اپنے اپنے حساب سے مرتب کیا"۔ (١٩٧٣ء، فرقے اور مسالک، ١٠٧)
"قیمے میں کچھ اس حساب سے مسالے ملاتے تھے کہ جوبات ان کے کبابوں میں ہوتی تھی سارے دلی کے کبابیوں کے یہاں نہیں ہوتی تھی"۔ (١٩٦٢ء، ساقی، جولائی، ٤٩)
"اللہ جلدی حساب کرنے والا ہے"۔ (١٩٠٦ء، الحقوق و الفرائض، ٧٧:١)
جو چاہیں لکھ لیں کاتب اعمال چار دن دیکھوں گا روز حشر میں کاغذ حساب کا (١٨٤٦ء، کلیات، آتش،١، ١٥٣)
"قرض ملتا نہیں، بنک میں حساب نہیں"۔ (١٩٢٤ء، خونی راز، ٨٣)
یا جوش کو یا خواجہ کو خط لکھتا ہوں دہلی گو آپ کو معلوم ہے، ہے ان کا حساب اور (١٩٣٨ء، کلیات عریاں، ٧٤:٢)
نہ سمجھا کبھی پائے اپنا حساب کہ ہم موج ہیں، بحر ہیں یا حباب (١٩١١ء، کلیات اسمائیل، ١١)
آیا جو موسمِ گل تو یہ حساب ہو گا ہم ہوں گے یار ہو گا جام شراب ہو گا (١٨٥٤ء، غنچہ آرزو، ٥)
مترادف
گنتی, گوشوارہ, کھاتا, اکاؤنٹ, محاسبہ
مرکبات
حساب سے باہر, حساب غبار, حساب کا دن, حساب نقدی, حساب نویس, حساب و کتاب, حساب داں
انگلش
["a cumbering","counting","reckoning","calculation","computation; arithmetic; account","accounts; bill (of charges); rate","price","charge; measure","measurement; proportion; rule","standard; estimation","judgment","opinion; condition","category."]