حیف کے معنی
حیف کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ حَیف (یائے لین) }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے اور بطور حرف اور گا ہے اسم صفت بھی مستعمل ہے اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور حرف، اسم اور گا ہے اسم صفت مستعمل ہے۔ ١٦٧٢ء، کو شاہی کے "کلیات" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["بے انصافی","بے انصافی کرنا","ذلیل کرنا","شرمسار کرنا","شرمندہ کرنا"]
حیف حَیف
اسم
حرف فجائیہ ( مذکر - واحد ), اسم کیفیت ( مذکر - واحد ), صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
حیف کے معنی
[" وہ مرا عشق گل افشاں رشتہ برپا حیف حیف وہ ترا حسن جواں سردرگربیاں ہائے ہائے (١٩٣٣ء، سیف و سبو، ١٨٩)"]
[" ہزار حیف کہ تقدیس بطن مادر میں ہلاک ہو گیا طفل نظاما نامولود (١٩٨٣ء، بےنام، ٧٦)","\"ان لوگوں نے بااینہمہ اصلاح و تہذیب عورتوں کے حق میں کیسے جور اور حیف کو جانپر رکھا ہے\" (١٨٩٥ء، چراغ علی، تہذیب الاخلاق، ٢٨:٣)"]
["\"اس کو ایک حیف اور رکیک وسبک تک بندی کے سوا اور کچھ نہیں سمجھتا۔\" (١٨٩٣ء، مقدمۂ شعرو شاعری، ٦٥)"]
حیف کے مترادف
افسوس, وائے
آہ, اُف, افسوس, انتقام, تعدی, جبر, دریغ, دُریغا, رحم, ستم, ظلم, وائے, ہائے
حیف english meaning
ahalasbe unjust (to)do injustice (to)fiefor shameoppress tyrannize
شاعری
- منظور ہو نہ پاس ہمارا تو حیف ہے
آئے ہیں آج دُور سے ہم تجھ کو تاڑ کر - نہ میری قدر کی اُس سنگدل نے میر کبھو
ہزار حیف کہ پتھر سے میں نے محبت کی - اب گئے اُس کے جُز افسوس نہیں کچھ حاصل
حیف صد حیف کہ کچھ قدر نہ جانی اس کی - حیف کہتے ہیں ہوا گلزار‘ تاراجِ خزاں
آشنا اپنا بھی واں اک سبزۂِ بیگانہ تھا - صد حیف اس کے ہاتھ ہے ہر زخم کا رفو
دامن میں جس کے ایک بھی تارِ وفا نہیں - صد حیف جن کے دَم سے پریشان ہے آدمی
سب کی نگاہ میں ہے وہی محترم یہاں - حیف اثر کا چب چب رہنا اور کبھی جو بات بھی کی
طنز سے تیرا ہنس کر کہنا آپ کی سننا کیا کہنا - دل نے تو الفت پنہاں کو نہ اصلا کھولا
چشم تر تونے مرا حیف یہ پردا کھولا - حیف صد حیف کہ انصاف زمانے میں نہیں
زہر ہے بات مری شیر و شکر تیری بات - حیف جیتے جی نہ کیجے عاشق اپنے سے ملاپ
جب وہ دنیا سے چلے تب لائیے تشریف آپ
محاورات
- حیف باشد دل دانا رمشوش باشد
- حیف دانا مرون و افسوس ناداں زیستن
- حیف درچشم زدن صحبت یار آخرشد روئے گل سیرندیدیم و بہار آخر شد