دار و مدار کے معنی

دار و مدار کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ دارو (و مجہول) + مَدار }

تفصیلات

iفارسی زبان سے ماخوذ |دار| کے بعد |و| بطور حرف عطف لگا کر فارسی مصدر |داشتن| سے صیغہ نہی |مدار| لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٧٧٤ء سے "رموزالعارفین" میں مستعمل ملتا ہے۔

[""]

اسم

اسم نکرہ ( مذکر )

دار و مدار کے معنی

١ - خاطر مدارت، تواضح، آؤ بھگت، دلجوئی۔

"دوست دشمن سے دار و مدار رکھو، دوسرے سب کام مشورت سے کرو۔" (١٨٢٤ء، سیر عشرت، ١٧)

٢ - نرمی، التفات۔

 تمھارا غیر سے دار و مدار دیکھ چکے عنایت و کرم بے شمار دیکھ چکے (١٨٥٤ء، ریاض مصنف، ٥١٦)

٣ - ٹھہراؤ، سکون، اطمینان۔

"خوب دلیری سے کام کرنے لگا مگر دار و مدار کے ساتھ کرتا تھا۔" (١٨٨٣ء، دربار اکبری، ٨٠٤)

٤ - صلح صفائی، مصالحت۔

"اورنگ زیب نے سکندر عادل شاہ بیجاپور سے دار و مدار کر کے ایک کروڑ روپیہ کی پیشکش نقد و جنس کی بوعدۂ اقساط قبول کر لی۔" (١٨٩٧ء، تاریخ ہندوستان، ٨:٨)

٥ - اختلاط، چھیڑ چھاڑ، ربط و ضبط۔

 صحبت اغیار و یار دیکھئے کب تک رہے مجھ سے یہ دار و مدار دیکھئے کب تک رہے (١٩١١ء، ظہیر دہلوی، داستان غدر، ٢٢)

٦ - عہد و پیمان، قول و قرار، وعدہ و وعید۔

 دل سے سب محو کیے تو نے جو تھے قول و قرار بھولے اے عہد شکن تجھ کو وہ سب دار و مدار (١٨٠٩ء، جرأت (شعلۂ جوالہ)، ٣٠٧:١)

٧ - انحصار

"جڑیں ہوا کی نمی کو جذب کرتی ہیں اور اس پر پورے کی زندگی کا دار و مدار ہے۔" (١٩٨١ء، آسان نباتیات، ٢٥:١)

٨ - آقا، مالک، قابض، حاکم۔

 وہی جلوہ ریز حرم میں ہے وہی نور بیت صنم میں ہے وہی تم میں ہے وہی ہم میں ہے وہی سب کا دار و مدار ہے (١٩٢٢ء، مطلع انوار، ٧٣)