درج کے معنی
درج کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ دَرْج }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٨٨٦ء سے "دستور العمل مدرسین دیہاتی" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["(دَرَجَ ۔ تہ کرنا)","ایک لمبا کاغذ جو لپیٹا جائے","تحریر جس کو لپیٹا یا تہ کیا جائے","رجسٹر پر چڑھانا","زیور یا جواہرات رکھنے کی صندوقچی","فہرست میں تحریر کرنا (کرنا ہونا کے ساتھ)","لکھنے کی جگہ","وہ چیز جس پر لکھا جائے","کتاب میں لکھنا","کمرہ دفتر"]
درج دَرْج
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
درج کے معنی
درج ہے تاریخ وصل و ہجر اک اک شاخ پر بات جو ہم تم نہ کہہ پائے، شجر کہنے لگے (١٩٧٩ء، جزیرہ، ٦٩)
درج کے مترادف
تحریر, نوشت
اندراج, تابوت, تحریر, جلد, صندوقچہ, صندوقچی, لکھائی, نوشت, ڈبہ, ڈبیا, کتاب
درج کے جملے اور مرکبات
درج بندی, درج رجسٹر, درج فہرست
درج english meaning
folding upfold; comprisingincludingholding; insertionentry (in a book)registration; a thing inor uponwhich one writes; a scroll or long paper (which is folded or rolled up; a writing folded or rolled up; a volume; a place for writinga closeta place for writing or anything written onentryentry ; writing ; recordingrecordingto be temptedto feel eager desire forwriting
شاعری
- درج ہے تاریخ وصل و ہجر اک اک شاخ پر
بات جو ہم تم نہ کہہ پائے‘ شجر کہنے لگے - مرے ہم سفر‘ تجھے کیا خبر!
یہ جو وقت ہے کسی دُھوپ چھاؤں کے کھیل سا
اِسے دیکھتے‘ اِسے جھیلتے
مِری آنکھ گرد سے اَٹ گئی
مِرے خواب ریت میں کھوگئے
مِرے ہاتھ برف سے ہوگئے
مِرے بے خبر‘ ترے نام پر
وہ جو پُھول کھلتے تھے ہونٹ پر
وہ جو دیپ جلتے تھے بام پر‘
وہ نہیں رہے
وہ نہیں رہے کہ جو ایک ربط تھا درمیاں وہ بکھر گیا
وہ ہَوا چلی
کسی شام ایسی ہَوا چلی
کہ جو برگ تھے سرِ شاخِ جاں‘ وہ گرادیئے
وہ جو حرف درج تھے ریت پر‘ وہ اُڑا دیئے
وہ جو راستوں کا یقین تھے
وہ جو منزلوں کے امین تھے
وہ نشانِ پا بھی مِٹا دیئے!
مرے ہم سفر‘ ہے وہی سفر
مگر ایک موڑ کے فرق سے
ترے ہاتھ سے مرے ہاتھ تک
وہ جو ہاتھ بھر کا تھا فاصلہ
کئی موسموں میں بدل گیا
اُسے ناپتے‘ اُسے کاٹتے
مرا سارا وقت نکل گیا
تو مِرے سفر کا شریک ہے
میں ترے سفر کا شریک ہوں
پہ جو درمیاں سے نکل گیا
اُسی فاصلے کے شمار میں
اُسی بے یقیں سے غبار میں
اُسی رہگزر کے حصار میں
ترا راستہ کوئی اور ہے
مرا راستہ کوئی اور ہے - گلیاں
(D.J. ENRIGHT کی نظم STREETS کا آزاد ترجمہ)
نظم لکھی گئی تو ہنوئی کی گلیوں سے موسوم تھی
اس میں گرتے بموں سے نکلتی ہُوئی موت کا تذکرہ تھا‘
فلاکت‘ دُکھوں اور بربادیوں کی اذیّت بھری داستاں درج تھی
اِس کے آہنگ میں موت کا رنگ تھا اور دُھن میں تباہی‘
ہلاکت‘ دُکھوں اور بربادیوں کی الم گُونج تھی
نظم کی اِک بڑے ہال میں پیش کش کی گئی
اِک گُلوکار نے اس کو آواز دی
اور سازینے والوں نے موسیقیت سے بھری دُھن بنا کر سجایا اِسے
ساز و آواوز کی اس حسیں پیشکش کو سبھی مجلسوں میں سراہا گیا
جب یہ سب ہوچکا تو کچھ ایسے لگا جیسے عنوان میں
نظم کا نام بُھولے سے لکھا گیا ہو‘ حقیقت میں یہ نام سائیگان تھا!
(اور ہر چیز جس رنگ میں پیش آئے وہی اصل ہے)
سچ تو یہ ہے کہ دُنیا کے ہر مُلک میں شاعری اور نغمہ گری کی زباں ایک ہے
جیسے گرتے بموں سے نکلتی ہُوئی موت کی داستاں ایک ہے
اور جیسے تباہی‘ فلاکت دُکھوں اور بربادیوں کا نشاں ایک ہے
سچ تو یہ ہے کہ اب کرّہ ارض پر دُوسرے شعر گو کی ضرورت نہیں
ہر جگہ شاعری کا سماں ایک ہے
اُس کے الفاظ کی بے نوا آستیوں پہ حسبِ ضرورت ستارے بنانا
مقامی حوالوں کے موتی سجانا
تو ایڈیٹروں کے قلم کی صفائی کا انداز ہے
یا وزیرِ ثقافت کے دفتر میں بیٹھے کلکروں کے ہاتھوں کا اعجاز ہے!! - لکھتے بیاضِ وقت پہ ہم کیا تاثرات
سب کچھ تھا درج اور کوئی حاشیہ نہ تھا - کیوں اَٹا ہوا ہے غبار میں، غمِ زندگی کے فشار میں
وہ جو درج تھا ترے بخت میں، سو وہ ہوگیا، اُسے بھول جا - بوسے مہاجنوں کو تو اُد بت سیمتن نہ دے
ورنہ وہ درج ہونگے سب اصل نہیں بیاز میں - غرض وہ دانت نہیں جوہری قدرت نے
دھری ہے ملگِ گہر درج لعل کے اندر - سکل بھوستن تے درج کہ یو بنائے اپے ساری
دساوے نیں میں جگ کے برس سولا کی ہو ناری
محاورات
- آنکس کہ نداند و بداند کہ بداند۔ درجہل مرکب ابد الد ہریماند
- پچھلے درجے کا
- حریف باختہ باخود ہمیشہ درجنگ است
- درجہ بدرجہ
- درجہ گھٹانا
- زر زر کشد درجہاں گنج گنج
- زر زر کشد درجہاں گنج، گنج
- سجن چت کبھو نہ دھریں درجن جن کے بول۔ پاہن مارے آم کو تو جھل دیت امول
- عرض بدرجئہ اجابت پہنچنا
- غایت درجے کا