دیور کے معنی
دیور کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ دے + وَر }
تفصیلات
iسنسکرت سے اردو میں ماخوذ ہے اور عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٤٧ء کو "فرح الصیبان" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔, m["برادر خُردِ شوہر","برادر نسبتی","خاوند کا بھائی","خاوند کا چھوٹا بھائی","شوہر کا چھوٹا بھائی"]
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جنسِ مخالف : دیوْرانی[دیو (ی مجہول) + را + نی]
- جمع غیر ندائی : دیوَروں[دے + وَروں (و مجہول)]
دیور کے معنی
"بلکہ معاشرے میں ساس، سسر، نند، بھاوج، دیور، جیٹھ، دیورانی، جٹھانی کے چاؤ چونچلے، ریشہ دوانیاں، اچھے اور برے برتاوے سب کچھ موجود ہیں۔" (١٩٨٦ء، اردو گیت، ٤٥)
دیور کے جملے اور مرکبات
دیور بھاوج
دیور english meaning
A husband|s brother (esp. his younger brother)
شاعری
- دیور ابھی ادھر پھرے اور میں جی میں کھو گئی
لیٹ کے آنکھیں موندلیں جس میں وہ سمجھیں سوگئی - جا کر انہوں کے گھر پر جب زور آزماویں
وہ گر دیور کو دیں ہم کوٹھا پھاند جاویں - ہوگیا ہے کچھ خلل پیدا دماغ یار میں
درپہ جا بیٹھا تو چنویا مجھے دیور میں - کچھ کہیے تو کیا وصل میں بھی ہم نہ ہوں محروم
کیوں آپ کی انگیا نے یہی دیور نکالی - دیور و در سے ہجر میں رونا برستا ہے
بدلی سیاہ خانہ عاشق کی چھت ہوئی
محاورات
- تو دیورانی میں جٹھانی۔ تیرے آگ نہ میرے پانی
- جیٹھ جٹھانی دیورا سب مطلب کے میت۔ مطلب بن تو کوئی بھی رکھے نہیں پریت
- خصم دیور دونوں ایک ساس کے پوت یہ ہو یا وہ ہو
- ٹاٹ کی انگیا مونجھ کی تنی۔ دیکھ میرے دیورا میں کیسی بنی