راکب کے معنی
راکب کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ را + کِب }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے اسمِ فاعل ہے اور بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ اردو میں اپنے اصل مفہوم کے ساتھ داخل ہوا۔ سب سے پہلے ١٧٣٢ء میں "کربل کتھا" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["سوار ہونا","اونٹ گھوڑے یا کسی بھی سواری کا سوار","ایک سوار","سوار جانور یا جہاز کا","سوار ہونے والا","سواری لینے والا","سواری کرنے والا / والی","شہ سوار","گھُڑ سوار","کوئی شے جو کسی دوسری شے کے اوپر رکھی جائے"]
رکب راکِب
اسم
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع استثنائی : راکِبین[را + کِبین (ی مجہول)]
- جمع غیر ندائی : راکِبوں[را + کِبوں (و مجہول)]
راکب کے معنی
"رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور مزاج ہر اعتبار سے مکمل راکب" (١٩٨٦ء، انصاف، ١٠٢)
"ٹامس پگاٹ نے ایک مرتعش تار کے مختلف مقامات پر کاغذ کے ایک راکب کو رکھ کر یہ دکھلایا کہ تار نہ صرف بحیثیتِ مجموعی حرکت کرتا ہے بلکہ وہ دو تین قطعوں پر بھی حرکت کرتا ہے" (١٩٤٥ء، طبیعات کی داستان، ١٨٩)
راکب کے مترادف
سوار
رَکَبَ, سوار, منتظر
راکب کے جملے اور مرکبات
راکب پوش
راکب english meaning
ridingmounted(on a horse or other beast)embarked(in a ship)on board(a ship or boat); a rider; a person on board(of a ship or boat)
شاعری
- راکب کے پاؤں گھوڑے کے زانو اڑا دیئے
ڈالتی ہے باقی ماندوں پر تری تلوار آنکھ - جو فی المثل ہو عدو سرزمین خاور میں
ہو اس کے قتل کا راکب کو باختر میں خیال - راکب کا عزم ہو تو رواں ہو یہ آگ پر
عباس باوفا نے لگایا ہے باگ پر - راکب عبائیں چاند سے چہروں پہ ڈالے ہیں
تونسے ہوئے سمند زبانیں نکالے ہیں - راکب جو بد سرشت تو مرکب تھا بد رکاب
دونوں شریر سبز قدم خانماں خراب - راکب سے کررہا تھا بدی کوئی خوش خرام
موزے پہ منھکو ڈالتا تھا کوئی بد لجام - چڑھا براق کے راکب نے دوش پر اپنے
سکھائی جس کو سواری وہی ہو اوس پہ سوار - راکب اس کا کرے ہے سن کر تبسم یہ بات
یعنی ان گیدیوں کا کچھ ہے دماغوں میں خلل - راکب وہ ہیں جو فرق دو عالم کے تاج ہیں
گھوڑا بھی جانتا ہے کہ نازک مزاج ہیں - راکب جزم ترا ناقہ صالح تہ ران
رائض عزم ترا روش ملائک پہ سوار