راکھ کے معنی
راکھ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ راکھ }
تفصیلات
iسنسکرت سے ماخوذ ہے۔ اردو میں بطور اسم نکرہ مستعمل ہے اور سب سے پہلے ١٦٣٨ء میں "چندر بدن و مہیار" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["جلی ہوئی چیز کا بھبھوت","کسی جلی ہوئی چیز کی خاک","کسی جلی ہوئی چیز کی خاکستر"]
رکھشا راکھ
اسم
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
راکھ کے معنی
"راستے میں ہوا ایسی خراب جیسے دوزخ کا دھواں زمین بالکل سیاہ اور خاک جیسے راکھ۔" (١٩٠٧ء، شعرالعجم، ٨٥:١)
"ان لوگوں سے ملا ہوں . جن پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ راکھ کی ہلکی سی تہ چڑھ جاتی ہے۔" (١٩٨١ء، سفر در سفر، ٣٧)
راکھ کے مترادف
دھول, بھس, خاک ستر, رماد
بھبوت, بَھبوت, بھس, بھسم, بھوبل, بھوبھل, چھار, خاک, خاکستر, رماد, رکشا, سواہ, مٹی
راکھ english meaning
ashescanopy |P|pavilion
شاعری
- میں نے تو یونہی راکھ میں پھیری تھیں انگلیاں
دیکھا جو غور سے‘ تری تصویر بن گئی - اب تو تھم جاؤ ان آنکھوں سے سلگتے اشکوں
شعلہ دل بجھ گیا‘ اب راکھ پہ کیا برسوگے - بچھا دیا تھا گلابوں کے ساتھ اپنا وجود!
وہ سو کے اٹھے تو خوابوں کی راکھ اٹھاؤں گی - غموں کی راکھ سے امجد‘ وہ غم طلوع ہوئے
جنھیں نصیب اک آہِ سحرگئی بھی نہ تھی - آنے والا کل
نصف صدی ہونے کو آئی
میرا گھر اور میری بستی
ظُلم کی اندھی آگ میں جل جل راکھ میں ڈھلتے جاتے ہیں
میرے لوگ اور میرے بچّے
خوابوں اور سرابوں کے اِک جال میں اُلجھے
کٹتے‘ مرتے‘ جاتے ہیں
چاروں جانب ایک لہُو کی دَلدل ہے
گلی گلی تعزیر کے پہرے‘ کوچہ کوچہ مقتل ہے
اور یہ دُنیا…!
عالمگیر اُخوّت کی تقدیس کی پہرے دار یہ دنیا
ہم کو جلتے‘ کٹتے‘ مرتے‘
دیکھتی ہے اور چُپ رہتی ہے
زور آور کے ظلم کا سایا پَل پَل لمبا ہوتا ہے
وادی کی ہر شام کا چہرہ خُون میں لتھڑا ہوتا ہے
لیکن یہ جو خونِ شہیداں کی شمعیں ہیں
جب تک ان کی لَویں سلامت!
جب تک اِن کی آگ فروزاں!
درد کی آخری حد پہ بھی یہ دل کو سہارا ہوتا ہے
ہر اک کالی رات کے پیچھے ایک سویرا ہوتا ہے! - اِک شرارِ گُمان کی مانند!
دھیان کی راکھ میں پڑے تم تھے - اکیسیوں صدی کے لیے ایک نظم
سَمے کے رستے میں بیٹھنے سے
تو صرف چہروں پہ گرد جمتی ہے
اور آنکھوں میں خواب مرتے ہیں
جن کی لاشیں اُٹھانے والا کوئی نہیں ہے!
ہماری قسمت کے زائچوں کو بنانے والا کوئی ہو شاید
پران کا مطلب بتانے والا کوئی نہیں ہے!
وہ سارے رسّے روایتوں کے کہ جن کی گرہیں کَسی ہوئی ہیں
ہمارے ہاتھوں سے اور پاؤں سے لے کے خوابوں کی گردنوں تک!
ہماری رُوحوں میں کُھبتے جاتے ہیں
اور ہم کو بچانے والا‘ چھڑانے والا کوئی نہیں ہےِ
زباں پہ زنجیر سی پڑی ہے
دلوں میں پھندے ہیں
اور آنکھوں میں شامِ زنداں کی بے کَسی ہے
چراغ سارے بجھے پڑے ہیں جلانے والا کوئی نہیں ہے!
مرے عزیزو‘ مجھے یہ غم ہے
جو ہوچکا ہے بہت ہی کم ہے
سَمے کے رَستے میں بیٹھے رہنے کے دن بھی اَب ختم ہورہے ہیں
بچے کھُچے یہ جو بال و پَر ہیں
جو راکھ داں میں سُلگنے والے یہ کچھ شرر ہیں
ہمارے بچّوں کے سر چھپانے کو جو یہ گھر ہیں
اب ان کی باری بھی آرہی ہے
وہ ایک مہلت جو آخری تھی
وہ جارہی ہے…
تو اس سے پہلے زمین کھائے
ہمارے جسموں کو اور خوابوں کو
اور چہروں پہ اپنے دامن کی اوٹ کردے
یہ سرد مٹی جو بُھربُھری ہے
ہماری آنکھوں کےزرد حلقے لہُو سے بھردے!
مرے عزیزو چلو کہ آنکھوں کو مَل کے دیکھیں
کہاں سے سُورج نکل رہے ہیں!
سمے کے رستے پہ چل کے دیکھیں - ہیلن
(مارلو کے اشعار کا آزاد ترجمہ)
’’یہی وہ چہرہ تھا
جس کی خاطر ہزار ہا بادبان کُھلے تھے
اسی کی خاطر
منار ایلم کے راکھ بن کر بھسم ہوئے تھے
اے میری جانِ بہار ہیلن!
طلسمِ بوسہ سے میری ہستی امر بنادے
(یہ اس کے ہونٹوں کے لمسِ شیریں میں کیا کشش ہے کہ روح تحلیل ہورہی ہے)
اِک اور بوسہ
کہ میری رُوحِ پریدہ میرے بدن میں پلٹے
یہ آرزو ہے کہ ان لبوں کے بہشت سائے میں عُمر کاٹوں
کہ ساری دُنیا کے نقش باطل
بس ایک نقشِ ثبات ہیلن
سوائے ہیلن کے سب فنا ہے
کہ ہے دلیلِ حیات ہیلن!
اے میری ہیلن!
تری طلب میں ہر ایک ذلّت مجھے گوارا
میں اپنا گھر بارِ اپنا نام و نمود تجھ پر نثار کردوں
جو حکم دے وہ سوانگ بھرلوں
ہر ایک دیوار ڈھا کے تیرا وصال جیتوں
کہ ساری دنیا کے رنج و غم کے بدل پہ بھاری ہے
تیرے ہونٹوں کا ایک بوسہ
سُبک مثالِ ہوائے شامِ وصال‘ ہیلن!
ستارے پوشاک ہیں تری
اور تیرا چہرہ‘ تمام سیّارگاں کے چہروں سے بڑھ کے روشن
شعاعِ حسنِ اَزل سے خُوشتر ہیں تیرے جلوے
تُمہیں ہو میری وفا کی منزل…!
تُمہیں ہو کشتی‘ تمہیں ہو ساحل‘‘ - اک شرارِ گمان کی مانند!
دھیان کی راکھ میں پڑے تم تھے - تجھے چھولیا تو بھڑک اٹھے مرے جسم وجاں میں چراغ سے
اسی آگ میں مجھے راکھ کر ، اسی شعلگی کو شباب دے
محاورات
- (جلا کر) راکھ کر ڈالنا
- (جلاکر) راکھ کر ڈالنا
- ادب راکھنا / رکھنا
- باپ دیوتا پوت راکھشس
- بھلا جو چاہے آپ کا دینا نہ راکھے باپ کا
- بیر جو راکھے سادھو ساتھ۔ کچھ نہ آوے اس کے ہاتھ
- ترک تتیا توتڑانا یہ کس کے میت۔ بھیڑ پڑت منہ پھیرلیں راکھیں نہ پریت
- جا بدھ راکھے رام۔ تاہی بدھ رہئے
- جاکو راکھے سائیاں مار نہ ساکے کو۔ جاکو رام رچھک تاکو کون بھچک
- جس کو خدا بچائے اس پر کبھی نہ آفت آئے۔ جس کو راکھے سائیاں مار نہ ساکے کو بال نہ بیکا کرسکے سب جگ بیری ہو