رد و بدل کے معنی
رد و بدل کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ رَد + دو (و مجہول) + بَدَل }
تفصیلات
iعربی زبان سے ماخوذ اسم |رد| کے ساتھ |و| بطور حرف عطف لگا کر عربی اسم |بدل| لگانے سے مرکب عطفی بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٩٢ء کو "دیوان محب" میں مستعمل ملتا ہے۔
[""]
اسم
اسم کیفیت ( مذکر، مؤنث - واحد )
رد و بدل کے معنی
عروج قومی زوال قومی خدا کی قدرت کے ہیں کرشمے ہمیشہ رد و بدل کے اندر یہ امر پولیٹکل رہا ہے (١٩٢١ء، اکبر، کلیات، ٥٥:٢)
"قائداعظم نے کہا پروگرام جس طرح مرتب ہوا ہے ویسے ہی ہو گا اس میں کوئی رد و بدل نہیں ہو گا۔ (١٩٨٦ء، مسلمانان برصغیر کی جدوجہد آزادی میں مسلم لیگ کا کردار، ٢٣٢)
"اس رد و بدل میں سخت کلامی کی نوبت پہنچ گئی۔" (١٩٢٦ء، مضامین شرر، ٢٠٢:٣)
"باہم وار چلنے لگے، رد و بدل ہونے لگی۔" (١٩٠٢ء، آفتاب شجاعت، ٦٧٥:١)
اس نے جب مال رد و بدل میں مارا ہم نے دل اپنا اٹھا اپنی بغل میں مارا (١٨٥٤ء، ذوق، دیوان، ٥٨)