روانی کے معنی
روانی کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ رَوا + نی }
تفصیلات
iفارسی میں |رفتن| مصدر سے مشتق اسم صفت |رواں| کے ساتھ |ی| بطور لاحقۂ کیفیت لگا کر بنایا گیا۔ اردو میں اصل معنی و ساخت کے ساتھ داخل ہوا سب سے پہلے ١٨٦٥ء میں "دیوانِ نسیم دھلوی" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["بہاؤ کی تیزی (رہنا ہونا کے ساتھ)","پانی کا بہاؤ","چلت پھرت","خنجر وغیرہ کے تیز چلنے کی حالت","طبیعت کی تیزی","عبارت یا تحریر میں سلاست"]
رَفْتَن رَوانی
اسم
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : رَوانِیاں[رَوا + نِیاں]
- جمع غیر ندائی : رَوانِیوں[رَوا + نِیوں (و مجہول)]
روانی کے معنی
ازل سے جانبِ شامِ ابد دمادم تیری موجوں کی روانی (١٩٨٤ء، سمندر، ٢٦)
"قطع کلام سے روانی جاتی رہتی ہے۔" (١٩٢٢ء، انار کلی، ٩٠)
نہ بازو میں ترے قوت نہ خنجر میں روانی ہے ہمیں تکلیف بے جا کس لیے جلاد دیتا ہے (١٨٦٥ء، دیوانِ نسیم دہلوی، ٢١٩)
"روانی کے معنی یکساں حرکت کے ہیں۔" (١٩٢٦ء، میزان، ٥٠)
"پسٹن کی سکرٹ کا جو حصہ کاٹ دیا جاتا ہے اس کے نہ ہونے سے پسٹن کی حرکت میں روانی اور ہمواری نہیں رہتی۔" (١٩٤٩ء، موٹر انجینئر، ٣٦)
"اس سے ہم یہ نتیجہ نکالنے میں حق بجانب ہونگے کہ ہر بحر کی ہیئتی صلاحیت اور روانی مختلف ہے۔" (١٩٨٧ء، نگار، اکتوبر، ٤٠)
روانی کا زرکر جو تھا دور بین رکھیا یوں اس انگشتری پر نگیں (١٦٤٥ء، قصہ بے نظیر، ٨٠)
"اسکو شائد سر سے اشارہ کرنے پر یا مطلق پر حمل کریں لیکن روانی روایات سے جو "جامع الاصول" میں ظاہر ہوتا ہے کہ مراد اوس سے وہی ہاتھ کا اشارہ ہے۔" (١٨٧٣ء، مطلع العجائب (ترجمہ)، ٨٩)
قدِ زبیا کی دیکھ اوس کے روانی چھپا ظلمت میں آبِ زندگانی (١٧٧٤ء، تصویر جانان، ٤٦)
ظفر عالم کہوں کیا میں طبیعت کی روانی کا کہ ہے اُمڈا ہوا دریا اہا ہاہا اہا ہاہا (١٨٤٥ء، دیوان ظفر، ٢٠:١)
وہ شاغر پلا جو روانی دکھائے طبیعت کی میری گرانی دکھائے (طلسمِ ہوشربا (مہذب اللغات)۔)
روانی کے جملے اور مرکبات
روانیء خون, روانی دوانی
روانی english meaning
goingpreceedingrunningflowing; fluencyreading(PL . of قندیل * )fluencyflux
شاعری
- میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی
اللہ اللہ اے طبیعت کی روانی اس کی - میر دریا ہے سُنے شعر زبانی اُس کی
اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی - کس طرح مجھے ہوتا گماں ترکِ وفا کا
آواز میں ٹھہراؤ تھا لہجے میں روانی - فرق
کہا اُس نے دیکھو‘
’’اگر یہ محبت ہے‘ جس کے دو شالے
میں لپٹے ہوئے ہم کئی منزلوں سے گزر آئے ہیں!
دھنک موسموں کے حوالے ہمارے بدن پہ لکھے ہیں!
کئی ذائقے ہیں‘
جو ہونٹوں سے چل کر لہُو کی روانی میں گُھل مِل گئے ہیں!
تو پھر اُس تعلق کو کیا نام دیں گے؟
جو جسموں کی تیز اور اندھی صدا پر رگوں میں مچلتا ہے
پَوروں میں جلتا ہے
اور ایک آتش فشاں کی طرح
اپنی حِدّت میں سب کچھ بہاتا ہُوا… سنسناتا ہُوا
راستوں میں فقط کُچھ نشاں چھوڑ جاتا ہے
(جن کو کوئی یاد رکھتا نہیں)
تو کیا یہ سبھی کچھ‘
اُنہی چند آتش مزاج اور بے نام لمحوں کا اک کھیل ہے؟
جو اَزل سے مری اور تری خواہشوں کا
انوکھا سا بندھن ہے… ایک ایسا بندھن
کہ جس میں نہ رسّی نہ زنجیر کوئی‘
مگر اِک گِرہ ہے‘
فقط اِک گِرہ ہے کہ لگتی ہے اور پھر
گِرہ در گِرہ یہ لہو کے خَلیّوں کو یُوں باندھتی ہے
کہ اَرض و سَما میں کشش کے تعلق کے جتنے مظاہر
نہاں اور عیاں ہیں‘
غلاموں کی صورت قطاروں میں آتے ہیں
نظریں جُھکائے ہوئے بیٹھ جاتے ہیں
اور اپنے رستوں پہ جاتے نہیں
بات کرتے نہیں‘
سر اُٹھاتے نہیں…‘‘
کہا میں نے‘ جاناں!
’’یہ سب کُچھ بجا ہے
ہمارے تعلق کے ہر راستے میں
بدن سنگِ منزل کی صورت کھڑا ہے!
ہوس اور محبت کا لہجہ ہے یکساں
کہ دونوں طرف سے بدن بولتا ہے!
بظاہر زمان و مکاں کے سفر میں
بدن ابتدا ہے‘ بدن انتہا ہے
مگر اس کے ہوتے… سبھی کُچھ کے ہوتے
کہیں بیچ میں وہ جو اِک فاصلہ ہے!
وہ کیا ہے!
مری جان‘ دیکھو
یہ موہوم سا فاصلہ ہی حقیقت میں
ساری کہانی کا اصلی سِرا ہے
(بدن تو فقط لوح کا حاشیہ ہے)
بدن کی حقیقت‘ محبت کے قصے کا صرف ایک حصہ ہے
اور اُس سے آگے
محبت میں جو کچھ ہے اُس کو سمجھنا
بدن کے تصّور سے ہی ماورا ہے
یہ اِک کیفیت ہے
جسے نام دینا تو ممکن نہیں ہے‘ سمجھنے کی خاطر بس اتنا سمجھ لو
زمیں زادگاں کے مقدر کا جب فیصلہ ہوگیا تھا
تو اپنے تحفظ‘ تشخص کی خاطر
ہر اک ذات کو ایک تالہ ملا تھا
وہ مخصوص تالہ‘ جو اک خاص نمبر پہ کُھلتا ہے لیکن
کسی اور نمبر سے ملتا نہیں
تجھے اور مجھے بھی یہ تالے ملے تھے
مگر فرق اتنا ہے دونوں کے کُھلنے کے نمبر وہی ہیں
اور ان نمبروں پہ ہمارے سوا
تیسرا کوئی بھی قفل کُھلتا نہیں
تری اور مری بات کے درمیاں
بس یہی فرق ہے!
ہوس اور محبت میں اے جانِ جاں
بس یہی فرق ہے!! - کہاں سے چلاتھا جدائی کا سایا، نہیں دیکھ پایا
کہ رستے میں تھی آنسوؤں کی روانی ، ذرا پھر سے کہنا - کس طرح مجھے ہوتا گماں، ترک وفا کا
آواز میں ٹھہراؤ تھا، لہجے میں روانی - آپہاڑوں کی طرح سامنے آ
ان دنوں میں بھی ہوں روانی میں - ہر بحر میں دریا کی روانی نظر آئے
پتھر کا بھی مضموں ہو تو پانی نظر آئے - تولے سے نہ رکتی تھی روانی تھی غضب کی
آیت تھی قیامت کی نشانی تھی غضب کی - مجھ شعر کی روانی سنیا جب سوں اے ولی
نم ناک ہے تدھاں ستی دامن سحاب کا
محاورات
- زبان میں روانی ہونا
- طبیعت میں روانی ہونا