رواں کے معنی
رواں کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ رَواں }{ رُواں }
تفصیلات
iفارسی میں |رفتن| مصدر سے فعل امر |رو| کے آگے لاحقہ صفت |اں| لگانے سے بنا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٤٩ء میں "خاور نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔, iسنسکرت زبان سے ماخوذ ہے۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٨٠٣ء میں "گنجِ خوبی" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["بغیر ہجے با معنی کئے پڑھنا","بہنے والا (کرنا ہونا کے ساتھ)","جاری چلنے والا","جلدی سے","حال کا","دوڑنے والا","فی الحال","مشق پر چڑھا","وہ عبارت جو پڑھی جائے","کتاب کی اصل"]
رَفْتَن رَواںروم رُواں
اسم
صفت ذاتی, اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- تقابلی حالت : رَواں تَر[رَواں + تَر]
- تفضیلی حالت : رَواں تَرِین[رَواں + تَرِین]
- جمع : رُوئیں[رُو + ایں (ی مجہول)]
- جمع غیر ندائی : رُوؤں[رُو + اوں (و مجہول)]
رواں کے معنی
"جملہ موٹریں، بسیں، موٹرسائیکل اور سکوٹر روبہ برائٹن رواں تھے" (١٩٧٥ء، بسلامت روای، ٢٨٨)
ترے پرچم کے سائے میں ترقی پر تجارت ہے تراسکہ رواں ہے جا بجا تری حکومت (١٩٢٩ء، مطلع انوار، ٥٤)
ہے رواں آگ کا دریا مری شریانوں میں موت کے بعد بھی پائے گا پایاب کہاں (١٩٧٧ء، خوشبو، ١٤٤)
چلے نہ ہاتھ تو گلے پر تو خود ہی چل جائے انہیں گلہ ہے کہ خنجر رواں نہیں ملتا (١٩٣٢ء، ریاضِ رضواں، ٨٣)
"اُسکی عبارت رواں اور صاف پاتا ہے۔" (١٨٠٣ء، گنج خوبی، ٦)
"آپ اردو بڑی رواں بولتے ہیں۔" (١٩٧٥ء، بسلامت روی، ٦٢)
بھولا ہوا ہوں عہدِ کو صبحِ الست کے پہلا سبق ہوا نہیں اب تک رواں مجھے (١٩٣٣ء، صوتِ تّغّزل، ١٨٧)
"افتتاح . ڈیڑھ دو بجے تک رواں رہا۔" (١٩٦٦ء، جنگ، کراچی، ١٨٥/٣٠)
"سال رواں جواب ختم ہو رہا ہے اپنی بعض خصوصیات سے ہماری تاریخ میں یاد گار حیثیت رکھتا ہے۔" (١٩٦٥ء، میزانیہ، ٦٦، ١٩٦٥، بلدیہ کراچی، ١)
"ریڈیم ہوا میں موجود گیس کے سالموں کو رواں بنا دیتا ہے یعنی یہ گیسوں کو برق گزارنے کے قابل بناتا ہے۔" (١٩٧٠ء، زعمائے سائنس، ٣٤٢)
"کریما، مامیقما، محمود نامہ صرف رواں پڑھ کے آمد نامہ یاد کرادیا۔" (١٨٩٩ء، امراؤ جان ادا، ٦٩)
رواں نہیں طبع جس کی شعر ترکی تر زبانی پر نہیں ہوتا ہے اوس کوں آبرو کے حرف سے بہرا (١٧١٨ء، دیوانِ آبرو، ٩)
"ہمارے گھرانے کی روایت فارسی اور اردو کی ہے والد صاحب انہی زبانوں میں رواں تھے۔" (١٩٨٤ء، زمین اور فلک اور، ٦٤)
"لیکن اب اس کے گالوں پر نرم نرم کالا رواں اُگ رہا تھا جسے نہ روئیں کا نام دیا جاسکتا تھا نہ داڑھی کا۔" (١٩٧٠ء، قافلہ شہیدوں کا (ترجمہ)، ٥٢:١)
"سبز رنگ کا روحی قالین تھا جس پر اتنا بڑا رواں تھا کہ ٹخنوں ٹخنوں پر اس میں گھس جاتے تھے اس وجہ سے ان کے آنے کی ذرہ بھر آہٹ نہ ہوئی۔" (١٩٣١ء، روحِ لطافت، ٣٣)
رواں کے مترادف
روم, رونگٹا, ریشہ
بال, بُرّاں, بہتا, تیز, جاری, جان, جانا, چلتا, رفتن, روح, رُوم, رونگٹا, ریشہ, سائر, گزرتا, متحرک, متن, مُو, موجودہ
رواں کے جملے اور مرکبات
رواں تبصرہ, رواں دواں, رواں شناسی, رواں حساب, رواں آمدنی, رواں انگیز, رواں پروری, رواں خط, رواں سازی, روئیں دار, رواں رواں
رواں english meaning
Goingpassingmovingcurrent; lowingfluid; quickbriskactivesharpHair of the bodybristledown; wool fur; nappile; mosscurrentcurrnetdelaydown, small hair (of body)fleetingflowinggoinggoing on viablenapreadingrunningtake a long timetake long (over)text
شاعری
- جس راہ سے وہ دل زدہ دلی سے نکلتا
ساتھ اُس کے قیامت کا سا ہنگامہ رواں تھا - ہے خاک جیسے ریگِ رواں سب نہ آب ہے
دریائے موج خیز جہاں کا سراب ہے - مت تبخستہ سے گزر قمری ہماری خاک پر
ہم بھی اک سرو رواں کے ناز برداروں میں تھے - جوں سبزہ چل چمن میں لب جو پہ سیر کر
ُعُمر عزیز جاتی ہے آب رواں کی طرح - جلوہ ہے مجھی سے لب دریائے سخن پر
صدر رنگ مری موج ہے میں طبع رواں ہوں - اس دشت میں اے راہ رواں ہر قدم اوپر
مانند جرس نالہ و فریاد کروگے - ڈیرے ڈالے ہیں بگولوں نے جہاں
اس طرف چشمہ رواں تھا پہلے - کس کو معلوم ان اشکوں کی حقیقت اے دوست
روح کی سمت جو آنکھوں سے رواں ہوتے ہیں - گردنیں ریت کے ساحل سے بندھی ہیں جن کی
یہ سفینے کسی صورت سے رواں بھی ہوں گے - وہ اب بھی سایۂِ ایرِ رواں کو تکتے ہیں
جنہیں زمانہ ہوا‘ اپنا گھر جلائے ہوئے
محاورات
- آنکھ سے آنسو چلنا (رواں) ہونا
- آنکھوں سے آنسو جاری ہونا یا رواں ہونا
- آنکھوں سے دریا بہنا یا جاری یا رواں ہونا
- آنکھوں سے دم نکلنا یا رواں ہونا
- امور مملکت خویش خسرواں دانند
- ایک رواں بھی میلا نہ ہونا
- ایک رواں بھی میلا ہوا
- دہ رواں دہ دواں دہ پراں
- رموز مصلحت ملک خسرواں دانند
- رواں دواں پھرنا