زہر کے معنی
زہر کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ زَہْر }
تفصیلات
iاصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اصل معنی اور اصل حالت میں بطور اسم اور گاہے اسم صفت مستعمل ہے۔ ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["آزار رساں","بہت بُرا","خطرناک بات جس سے ہلاکت یا نقصان کا اندیشہ ہو","ذائقے میں ناگوار یا ناقابلِ برداشت","سخت ناگوار","ضرر رساں","نقصان دہ","وہ چیز جس کے کھانے سے انسان مرجائے","کوئی چیز جو نہایت کڑوی ہو","کڑوا کسیلا یا کھاری"]
اسم
صفت ذاتی ( واحد ), اسم نکرہ
اقسام اسم
- ["جمع غیر ندائی : زَہروں[زَہ + روں (واؤ مجہول)]"]
- ["جمع غیر ندائی : زَہْروں[زَہ + روں (واؤ مجہول)]"]
زہر کے معنی
["\"دو تین دن تک کڑوی زہر دوا پینی پڑی۔\" (١٩٦٧ء، یادوں کے چراغ، ٧٣)","\"نکاح کا ہونا تھا کہ بھانجہ زہر معلوم ہونے لگا۔\" (١٩١٧ء، شام زندگی، ٧٠)"," کہنے لگی سن کے یہ کیا قہر ہے واسطے اس کے یہ دوا زہر ہے (١٩٠٧ء، اجتہاد، ١٦٥)","\"پست نوعیت کی افادہ پرستی . پوری قوم کے رگ و ریشے میں یہ زہر سرایت بھی کر جاتے ہیں۔\" (١٩٦٢ء، انداز نظر، ٣١)"]
[" ظلمت شب ہے میسر تو کبھی نور سحر زہر دیتے ہیں کبھی خاک شفا دیتے ہیں (١٩٨٣ء، حصار انا، ٤٧)","\"منور ! تم اس پھوپی کی بھتیجی ہو جس نے سوکن کا زہر شہد کے گھونٹ کی طرح پیا اور اف نہ کی۔\" (١٩٣٦ء، ستونتی، ٣٤)"," تیری آنکھوں میں ترے زہر کے شعلے بھر دوں خاک کے سانپ کو چل خاک کو واپس کر دوں (١٩٨٤ء، سمندر، ٧٧)"]
زہر کے مترادف
سم
برا, بس, تلخ, تیہا, خشم, دِس, سَم, غصّہ, غضب, غیظ, قاتل, مضر, مہلک, ناگوار, وِش, کرودھ, کڑوا, ہلاہل
زہر کے جملے اور مرکبات
زہرقاتل, زہرباد, زہرمار, زہر آلود, زہر ہلاہل, زہرکش, زہرآلود, زہر قاتل, زہر خند, زہر بال, زہر بردار, زہر بھرا, زہر پاشی, زہر پیکاں, زہر چشم, زہر خنہ, زہر خنداں, زہر خورانی, زہر دار, زہر دہی, زہر غم, زہر کا پتلا, زہر کا چھالا, زہر کا گھونٹ, زہر کش, زہر گیا, زہر مہرہ, زہر ناب, زہر ناک, زہر ناکی, زہر نگاہ, زہر نوش
زہر english meaning
do so owing to guilty consciencejuridical acumen [A~doublet of فقہ]poisonturn palevenom
شاعری
- لذتِ زہر غم فرصتِ دلداراں سے
ہووے منہ میں جنھوں کی شہد و شکر مت پوچھو - سبزانِ شہر اکثر درپے ہیں آبرو کے
اب زہر پاس اپنے ہم بھی منگا رکھیں گے - ٹھہرو کہ آئینوں پہ ابھی گرد ہے جمی
سینوں کا سارا زہر نگاہوں میں آگیا - ثمر کسی کا ہو شیریں کہ زہر سے کڑوا
مجھے ہیں جان سے پیارے سبھی شجر اپنے - جو زہر پی چکا ہوں تمہیں نے مجھے دیا
اب تم تو زندگی کی دعائیں مجھے نہ دو - دھوپ ہے اور زرد پھولوں کے شجر ہر راہ پر
اک ضیائے زہر سب سڑکوں کو پیلا کرگئی - ڈستا رہے گا اب تو یونہی زندگی کا ناگ
ہونا پڑے گا زہر کا خوگر سہیلیو! - عجیب زہر تھا محرومیوں کا حاصل بھی
بدن پہ چل نہ سکا‘ روح تک اُتر بھی گیا - جانے یہ کیسا زہر دلوں میں اُتر گیا
پرچھائیں زندہ رہ گئی‘ انسان مرگیا - چڑھے گا زہر خوشبو کا اُسے آہستہ آہستہ
کبھی بھگتے گا وہ خمیازہ پھولوں کے مسلنے کا
محاورات
- اپنے حق میں کانٹے بونا یا زہر کرنا
- ایک آنکھ میں لہر بہر ایک میں خدا کا قہر۔ ایک آنکھ میں شہد ایک آنکھ میں زہر
- بات زہر سے بھری ہونا
- بات زہر لگنا یا ہونا
- بات میں زہر بونا
- بسیر پکڑ زہر کو چاٹ پر ناری سنگ چال نہ بات
- جو گڑ دیئے سے مرے اسے زہر کیوں دیا جائے
- چوشد زہر عادت مضرت نہ بخشد
- دل میں زہر بھرا ہونا
- زہر میں بجھنا