سحاب کے معنی
سحاب کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ سَحاب }
تفصیلات
iعربی زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو میں بھی اسم ہی استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٦٧٨ء "کلیات غواصی" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["کھینچنا"]
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
سحاب کے معنی
بچھڑ کے تم سے نہیں رک سکے کبھی آنسو تمام عمر برستے رہے سحاب سے ہم (١٩٨٤ء، چاند پر بادل، ١٩٥)
"دوسری قسم۔ بہ نسبت پہلی قسم کے زیادہ گہری زیادہ چھوٹی اور زیادہ سفید ہوتی ہے، اس کو سحاب کہتے ہیں۔" (١٩٣٦ء، شرح اسباب (ترجمہ)، ٦٠:٢)
سحاب تھا کہ ستارہ گریز پا ہی لگا وہ اپنی ذات کے ہر رنگ میں ہوا ہی لگا (١٩٧٧ء، خوشبو، ١٥٦)
سحاب کے جملے اور مرکبات
سحاب فلکی
سحاب english meaning
A cloud; cloudspersia ; Iran پارسی N.M. & F. *
شاعری
- رحمت غضب میں نسبت برق و سحاب ہے
جس کو شعور ہو تو گنہگار کیوں نہ ہو - سیل کی رہگزر ہوئے، ہونٹ نہ پھر بھی تر ہوئے
کیسی عجیب پیاس تھی، کیسے عجب سحاب تھے! - عروج اہل کرم کے لیے ہے دنیا میں
کس آبروسے ہوا پر سحاب رہتا ہے - خندہ برق تیغ میں گرمی مہر تیر ماہ
گریہ زخم تیر میض جوش سحاب آزری - بحث گریہ میں ہمارے دیدہ پر آب سے
بھاگ جاتا ہے ہمیشہ چھوڑ کر پالا سحاب - جلتا ہے تیز وقت سے ساعت سے آن سے
رفتار میں سحاب درست آنکھ کان سے - مجھ شعر کی روانی سنیا جب سوں اے ولی
نم ناک ہے تدھاں ستی دامن سحاب کا - حاضر ہیں ساقیا ترے درپر یہ میگسار
بارانی سحاب کرم کے امیدوار - بنے سحاب گراس سےتو فتنے ہی برسیں
اثر یہ کوچہ دلدار کے بخار میں ہے - ہوں وہ گریاں آنسوؤں کا مینہ کبھی تھمتا نہیں
آنکھ کا بردہ سحاب برشگال ہوگیا