سدا کے معنی
سدا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ سدا }
تفصیلات
iاصلاً سنسکرت زبان کا لفظ ہے اور بطور متعلق فعل مستعمل ہے۔ اردو میں سنسکرت سے ماخوذ ہے اصل معنی اور اصل حالت میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور متعلق فعل استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["آئے دن","جگ جگ","جُگ جُگ","جُگ جُگ جاوید","جیسے سدا کے دکھیا بختاور نام سدا کسی کی نہیں رہی","ہر وقت"]
اسم
متعلق فعل
سدا کے معنی
اب اس کو کفایت کہو یا اس کا شعور عورت کا تو یہ گن ہے سدا سے مشہور (١٩٧٨ء، گھر آنگن، ٣١)
میں انتظار خط کی صعوبت سے بے خبر تم انتظار خط میں سدا مبتلا سہی (١٩٤٧ء، میں ساز ڈھونڈتی رہی، ٣٧)
سدا کے مترادف
دائم, جاوید, جاوداں, ہمیشہ, مدام
برابر, جاوید, دائم, دوام, لگاتار, متواتر, مدام, مسلسل, نت, ہمیشہ
سدا کے جملے اور مرکبات
سدابہار
سدا english meaning
alwaysperpetuallycontinuallyevercelestial globehit at feet as trick in clubbing
شاعری
- ہم عشق میں نہ جانا غم ہی سدا رہے گا
دس جون جو ہے یہ مہلت سو یہاں وہا رہے گا - اب جھمکی اُس کی تم نے دیکھی کبھو جو یارو
برسوں تلک اسی میں پھر دل سدا رہے گا - اگرچہ عمر کے دس دن یہ لب رہے خاموش
سخن رہیگا سدا میری کم زبانی کا - ہمیں بار اُس در پہ کثرت سے کیا ہو
لگا ہی رہے ہے سدا وہاں تو دربار - کاروانی ہے جہاں عمر عزیز اپنی میر
رہ ہے درپیش سدا اس کو سفر کرنے کی - سال میں ابر بہاری تجھ سے اکباری ہے فیض
چشم نم دیدہ سے عاشق کی سدا جاری ہے فیض - مُنہ تکتے ہی رہے ہیں سدا مجلسوں کے بیچ
گویا کہ میر محو ہیں میری زباں کے لوگ - جانے کس کی آرزو نے گُل کھِلائے اس قدر
میری آنکھوں میں سدا خوابوں کا گلدستہ رہا - زندگی ہم ترے داغوں سے رہے شرمندہ
اور تُو ہے کہ سدا آئینہ خانے مانگے - چھُپ چھُپ کے سدا جھانکتی ہے خلوتِ گل میں
مہتاب کی کرنوں کو حیا تک نہیں آتی
محاورات
- آج نپوتی کل نپوتی ٹیسو پھولا سدا نپوتی
- آلسی سدا روگی
- انجان سجان سدا کلیان
- ایک اہاری سدا برتی ایک ناری سدا جتی
- ایک اہاری سدا سکھی
- پریتم پریتم سب کہیں پریتم جانے نہ کو۔ ایک بار جو پریتم ملے سدا آنند پھر ہو
- پن کی جر سدا ہری
- جنم کے دکھیا نام (چین) سدا سکھ
- حسن کی کھیتی سدا ہری نہیں رہتی
- داتا سدا دلدری