سر سرانا کے معنی
سر سرانا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ سَر + سَرا + نا }
تفصیلات
iمقامی زبان سے ماخوذ اسم صوت |سر سر| کے بعد |ا| زائد لگا کر |نا| بطور لاحقہ مصدر لگانے سے بنا۔ اردو میں بطور فعل استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٧٧٥ء سے "مثنویات حسن" میں مستعمل ملتا ہے۔
["سَرْسَر "," سَرْسَرانا"]
اسم
فعل لازم
سر سرانا کے معنی
"خوف ختم ہوگیا یا نہ ہونے کے برابر رہ گیا، ایک دوست کو عالم خیال میں رات کو ہر طرف سانپ سرسراتے رینگتے پھنکارتے نظر آتے تھے۔" (١٩٧٣ء، ہپناٹزم، ٧٣)
"آسمان پر بھوری بھوری بدلیاں جھوم رہی تھیں درختوں میں ہوا سرسرا رہی ہے۔" (١٩٨١ء، چلتا مسافر، ١٣١)
"کھڑکیوں سے سرسراتے سفید پردے دکھائی دیتے ہیں۔" (١٩٨٦ء، سرحدہ، ١٢١)
"اس غیر مرئی لمس کی جھنجھناہٹ بہت دیر تک میرے رگ و پے میں سرسراتی رہی۔" (١٩٦٨ء، ماں جی، ٤٤)
"نہروں کی نالیوں میں چپکے چپکے پانی سرسرانے لگا۔" (١٨٨٧ء، سخندان فارس، ١٨٠:٢)
"پودہ سرسرا کر ہوا سے اٹھکھیلیاں کرتا۔" (١٩٢٩ء، وداع خاتون، ٣)
لپٹ لینا کبھی تم بھی پڑی ہے کیا جتانے کی ذرا سر لے یہ سینہ چھیڑ اوس کے سرسرانیکی (١٩٢١ء، گورکھ دھندا، ٣٩)
"اب حاات بھی اس کپڑے کی طرح سرسراتے ہوئے میرے قابو میں آجائیں گے۔" (١٩٨٧ء، افکار، کراچی، ستمبر، ٤٦)