سرخی
{ سُر + خی }
تفصیلات
iفارسی زبان سے ماخوذ اسم |سرخ| کے ساتھ |ی| بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔
["سُرْخ "," سُرْخی"]
اسم
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : سُرْخِیاں[سُر + خِیاں]
- جمع غیر ندائی : سُرْخِیوں[سُر + خِیوں (و مجہول)]
سرخی کے معنی
تم دیکھتے بیٹھے تو ہو بسمل کا تڑپنا سرخی کہیں رہ جائے نہ دامان نظر میں (١٩٨٣ء، سرمایۂ تغزل، ١٣٩)
"سحر کانت بولے: ہاں اینٹیں، چونا، سرخی، تو جمع کی گئی تھی۔" (١٩٣٢ء، میدان عمل، ٣٩١)
"چونا اور ریت یا عمدہ جلی ہوئی سرخی کی آمیزش سے استرکاری تیار کی جاتی ہے۔" (١٩١٧ء، رسالہ تعمیر عمارت (ترجمہ)، ٣٣)
نقطے عیاں ہیں سورۂ والشمس پر کہ خال سرخی کے مدکہ آنکھوں کے ڈورے ہیں لال لال (١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٣٧٤)
"منکر ایک درباری، کہو کیسی سرخی رہے گی۔" (١٩٨٧ء، اک محشر خیال، ١٦٩)
"موضوع کارڈ کی ترتیب کے وقت اس کارڈ کی سرخی کا بغور مطالعہ کیا جائے۔" (١٩٧٠ء، نظام کتب خانہ، ٢٣٢)
مترادف
لالی, غازہ
مرکبات
سرخی مائل