سرکشی کے معنی

سرکشی کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ سَر + کَشی }

تفصیلات

iفارسی زبان سے ماخوذ مرکب |سرکش| کے ساتھ |ی| بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٦٤٩ء سے "خاورنامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["چلنا دیکھنا رہنا کرنا نکال دینا نکل جانا کے ساتھ","حکم عدولی","سر زوری","منھ زوری"]

اسم

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )

سرکشی کے معنی

١ - نافرمانی، بغاوت۔

"مزاج میں سرکشی اور نک چڑھاپن ہمیشہ سے تھا۔" رجوع کریں: (١٩٨٤ء کیمیا گر، ١١)

٢ - غرور، گھمنڈ۔

 اس قد کے آگے سرو کی ہے سرکشی فضول باعث فقط یہ ہے کہ ذرا بڑھ گیا ہے طول (١٨٧٥ء، مونس، مراثی، ١٧٤:١)

سرکشی english meaning

delicatelean

شاعری

  • ہوا میں آکے جو کرتا ہے سرکشی شعلہ
    تو چٹکیاں دل آتش میں لے ہے آتش گیر
  • یہ سرکشی ہے اتنی تنگ مایگی پہ کیا
    جھمکا نہیں ہے بحر اگر اس حباب میں
  • کرتے ہیں سرکشی جو کف پا سے آبلے
    اے خا دشت عشق بٹھا دے انھوں کے تئیں
  • ظاہر کماں سے سرکشی بد نژاد تھی
    قبضے میں تیغ بدعت ابن زیاد تھی
  • پیری میں جھلتے جھلتے پہنچا ہوں خاک تک میں
    وہ سرکشی کہاں ہے اب تو بہت دبا ہوں
  • سرکشی مت کر تو اپنے زور پر اتنا نہ کود
    سرکشی سے دیکھ سر گرداں ہے یہ چرخ کبود
  • فلک نے سہم کے بھی یہ نہ سرکشی چھوڑی
    اگرچہ ناک میں بھی کہکشاں کا تیر ہوا
  • وہ سرکشی سے گو متوجہ نہ ہوا ادھر
    ہم عاجزانہ کرتے ہیں اس کو سلام روز

محاورات

  • آمادۂ سرکشی رہنا یا ہونا

Related Words of "سرکشی":